امیجی نیشن
IMMAGINATION
اب میں قوت فکر کے بارے میں لکھتا ہوں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ لاشعور سے کسی واقعے کو شعور میں لاکر IMAGINE کیا جاتا ہے (بد قسمتی سے اردو کا کوئی لفظ اس انگریزی لفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا بلکہ انگریزی زبان میں بھی اس لفظ کو ہر موقع پر الگ معنوی شکل دی جاتی ہے تاہم چونکہ وہ زبان اردو سے کہیں زیادہ وسیع ہے اس لئے میں اس لفظ کو جوں کا توں استعمال کر رہا ہوں تاکہ ہر بار مجھے الگ ترجمہ نہ پیش کرنا پڑے) لیکن امیجی نیشن کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے۔ ایک امیجی نیشن وہ ہے جو ہم گزرے ہوئے واقعات کو سامنے لا کر دیکھتے ہیں۔ ایک امیجی نیشن وہ ہے جو ہم کسی واقعے کے کسی حصے کو صحیح دیکھتے ہیں مگر اس کے ساتھ خود اپنے ذہن سے اپنی خواہشات کے مطابق واقعات گڑھ کر اس میں شامل کر دیتے ہیں۔ اسے انگریزی میں DAY DREAM (جاگتے خواب) کہا جاتا ہے۔ ایک امیجی نیشن وہ ہوتا ہے جس کا کسی واقعے سے تعلق نہیں ہو تا بلکہ ہم اپنے ذہن کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسا تصور باندھے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ ہیپناٹزم کا تعلق زیادہ تر اسی امیجی نیشن سے ہے۔ وہ واقعات جو گزر چکے ہیں ان کو امیحن IMAGINE کرنے کا ذکر تو میں لاشعور کے سلسلے میں کر چکا ہوں۔ اب ان واقعات کا تھوڑا سا تذکرہ بھیکیے دیتا ہوں جن کا تعلق DAY DREAMINGے ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی لڑکی سے محبت کرتا ہے اس کا حاصل کرنا اس کے لئے دشوار ہے یا اس سے شادی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب وہ شخص تنہائی میں بیٹھ کر اپنی محبوبہ کا تصور کرتا ہے۔ ذہن ہی ذہن میں بارات آتی ہے، باجے بجتے ہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں وہ امیجی نیشن میں دیکھ کر مسرور ہوتا ہے جو اس کی خواہش ہیں۔ اس طرح وہ گھنٹوں پڑا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ بعض اوقات امیجی نیشن اتنا عمیق ہوتا ہے کہ شعور بالکل بے حس ہو جاتا ہے اور آدمی کو اپنے گردو پیش تک کا ہوش نہیں رہتا۔ اسے یہ احساس نہیں رہتا کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی پاس سے گزرنے والی موٹر کی آواز یا کسی دوست کی پکار تک نہیں سکتا۔ بسا اوقات اسی طرح وہ جنسی آسودگی بھی حاصل کر لیتا ہے اور اس کو ہوش اس وقت آتا ہے جب اس کی ہیجانی کیفیت ختم ہو جاتی ہے.
خالص امیجی نیشن
خالص یا قطعی امیجی نیشن اس کو کہتے ہیں کہ انسان تمام واقعہ یا تمام تفصیل خود اپنےذہن سے پیدا کر سکے۔ مثلاً آپ کی زندگی میں ہزاروں بار ایسا ہوا ہو گا کہ آپ بیٹھے ہوئےہیں یکا یک آپ کا دل چاہا کہ آپ ہوائی جہاز میں سفر کریں چنانچہ آپ اپنے آپ کو ہوائی جہاز میں بٹھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تصور ہی تصور میں دنیا بھر کی سیر کر آتے ہیں۔آپ نے ایسے لوگوں کے واقعات بھی سنے ہوں گے جو محض تصوراتی محبت ) imaginary loveمیں مبتلا ہو جاتے ہیں یعنی جن کے محبوب کا کوئی وجود نہیں ہوتا مگر وہ امیجی نیشن سے ایک محبوب تراش لیتے ہیں۔ پھر اس کے خدو خال بالکل ویسے ڈھال لیتےہیں جیسی کہ ان کو آرزو ہوتی ہے۔ وہ اس سے اپنے ذہن میں شادی رچاتے ہیں ذہن میں ہی اس سے لیلیٰ مجنوں کا سا کھیل کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی تو وہمی محبت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان مجنوں ہو جاتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی اس کی ایک محبوبہ ہے اوروہ اس سے عشق کرتا ہے۔ ایسے لوگ دہری زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے ہی اشخاص دہری شخصیت SPLIT PERSONALTY پیدا کر لیتے ہیں۔ اس کو آپ ذاتی ہپناٹائز
SELF HYPNOTIZEکہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنےآپ کو ذہن کی مسلسل ہدایت اورامیجی نیشن سے ہپناٹائز کر لیتے ہیں۔ ان کی اس دہری شخصیت کاعلم
اس وقت ہوتا ہےجب ان کو ہپناٹائز کیا جائے۔ بسا اوقات اس قسم کی MULTIPLE PERSONALITY رکھنے والے لوگ ایک نو آموز ماہر تقویم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے زید ہوتے ہیں اور جب ان کو معمول بنا لیا جا ئے تو وہ بکر بن جاتے ہیں اور جب ان کو جگایا جاتا ہے تو وہ عمر ہوتے ہیں جس کو زید اور بکرے کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا اس لئے ہپناٹزم کا عمل کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس قسم کی دوہری شخصیت رکھنے والا کہیں کسی الجھن میں مبتلا نہ ہو جائے۔اسی طرح یہ تخیل ارادی اور غیر ارادی بھی ہوتا ہے یعنی شعوری تخیل تو وہ ہوا جو آپ کے ارادے سے آپ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور لاشعوری تخیل وہ ہوتا ہے جو آپ کے شعور سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قطعی طور پر آپ کے ارادے اور خواہش کے خلاف ظہور میں آتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ وہ ہزار چاہتا ہے کہ وہ اس لاشعوری تخیل سے چھٹکارا حاصل کرلے مگر اس کی کوشش بے کار ہو جاتی ہے اور وہ مجبور و خاموش ہو کر لاشعور کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ بسا اوقات آپ نے تجربہ کیا ہو گا کہ آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ یکایک آپ کا ذہن ادھر ادھر بھٹکنا شروع کر دیتا ہے۔ آپ کئی کئی صفحات پڑھ جاتے ہیں مگر ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑتا۔آپ دوبارہ کتاب شروع کرتے ہیں مگر پھر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ بالآخر آپ کتاب رکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں اور کچھ دیر ذہن کو آرام دینے کے بعد آپ دوبارہ کتاب با آسانی پڑھ لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اس کے باوجود بھی آپ کا ذہن صاف نہیں ہوتا۔ یہ وہی لا شعوری امیجی نیشن ہوتا ہے اس کا تعلق کسی ماضی قریب کے واقعے سے ہوتا ہے جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور یکایک وہ واقعہ آپ کے لاشعور سے ابھر کر شعور میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر چونکہ آپ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ اسے دبانا چاہتے ہیں۔لیکن آپ جتنی کوشش کرتے ہیں کہ وہ واقعہ دبا رہے اتنا ہی زیادہ ابھرتا ہے۔آخر آپ کی کوشش سے وہ اتنا گڈمڈ ہو جاتا ہے کہ نہ تو واقعہ ہی شعور میں اصلی صورت میں ابھرتا ہے اور نہ ہی کتاب کے حروف سجھائی دیتے ہیں اور اسی الجھن میں آپ کتاب نہیں پڑھ سکتے اور اس واقعہ کو دبا رہنے دیتے ہیں۔جب کتاب رکھ کر لاشعور کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو گویا آپ نے اس تخیل کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کر دیا، آپ کا یہ اعلان ہی آپ کے ذہن کو صاف کر دیتا ہے اور کچھ دیر بعد آپ با آسانی وہ کتاب پڑھ لیتے ہیں۔لیکن وہ واقعات جو ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہیں عموماً کبھی اپنی اصلی صورت میں ذہن میں نہیں ابھرتے۔ آپ کتاب پڑھ رہے ہیں پڑھتے پڑھتے آپ کے سامنے لفظ بکس” آتا ہے۔ بظاہر یہ لفظ”بکس” ایک معمولی لفظ ہے مگر اس کے اندر ماضی بعید سے متعلق کوئی واقعہ پوشیدہ ہے۔ یہ اشاریاتی لفظ ہی آپ کے شعور کو اکسانے کے لئے کافی ہوگا۔ اس طرح وہ پوشیدہ واقعہ جس کا اشاریہ SYMBOL یہ لفظ بکس ہے لاشعور سے ابھرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے۔ مگر آپ کے سامنے وہ واقعہ بھی اشارتی طور پر ہی ابھرے گا۔ آپ نہ تو اس واقعے کا سر پیر سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ یہ بالکل ایساہی ہوتا ہے جیسے میں نے پتنگ والا واقعہ بیان کیا۔انہی اشاریاتی الفاظ سے محلل نفس،انسان کے شعور کو اکسا کر وہ واقعات باہر نکالتاہے جن کا تعلق بچپن کے کسی حادثے سے ہو۔ یہ علامات SYMBOL ہی انسان کو مختلف الجھنوں میں مبتلا رکھتی ہیں مثلاً بکس ہی کولیجئے۔ بکس عام طور پر ماں کے رحم کو پیش کرتا ہے۔ اکثر انسان اپنی ذمے داریوں سے اکتا کر بچپن کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں جب وہ بالکل بے نیاز ہوا کرتے تھے۔وہ اپنی خوشی ہستے تھے اپنی خوشی روتے تھے۔ ماں باپ ان کا لاڈ پیار کیا کرتے تھے۔ اب جب کہ ان کو دنیا کی لا انتہاذمے داریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ اس بچپن کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا لاشعور چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ بچے بن جائیں۔ ماں کا رحم کوکھ)بچے کا بہترین سہارا ہے۔چنانچہ عین ممکن ہے کہ یہ بکس فراریت کی راہ دکھا کر بچپن کی طرف لوٹ جانے کے ارادے کی علامت ہو۔بہر حال اس قسم کے لاشعوری احساسات انسان کے اندر شعوری امیجی نیشن پیدا کرتے ہیں۔بسا اوقات انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اس لاشعوری امیجی نیشن کا شکار بھی ہو جاتا ہے مثلاً آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کی دیرینہ خواہش ہے کہ آپ یورپ کا سفر کریں مگر یہ خواہش مالی یا دیگر مشکلات کی بنا پر پوری نہیں ہوتی۔لہٰذا آپ کا ذہن اس خواہش کی تکمیل کی خاطر طرح طرح کے طریقے اختیار کرتا ہے۔ کبھی آپ امیجی نیشن میں ہوائی جہاز پر بیٹھے ہوئے ہیں ،کبھی بحری جہاز اور کبھی ریل گاڑی پر۔اس طرح مختلف طریقوں سے ان خواہشات کی تکمیل ہوتی رہتی ہے اور ذہنی طور پر کسی حد تک آپ آسودگی حاصل کر لیتے ہیں۔دراصل ہم زندگی کی اکثر خواہشات کی تکمیل اسی طرح سے کرتے ہیں،کبھی رات کے خوابوں میں اور کبھی دن کے خوابوں میں۔ اگر قدرت نے انسان کے اندر یہ طریقہ پیدا نہ کیا ہوتا تو اس دنیا کی آدھی آبادی نا مکمل اور نا آسودہ خواہشات کی وجہ سے پاگل ہو جاتی۔انسان کے لئے یہ ایک بہت غنیمت سہارا ہے۔وہ لوگ جو ذہنی طور پر عیاشی کر کے آسودگی حاصل کر لیتے ہیں ان لوگوں سے بہت بلند ہوتےہیں جو ذہنی آسودگی کے بجائے عملی طور پر زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جاہل طبقہ عملی جرائم میں زیادہ حصہ لیتا ہے کیونکہ ان کا ذہن اس حد تک استوار DEVELOP نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی آسودگی حاصل کر سکے۔ کند ذہن لوگوں کا امیجی نیشن بھی کند ہوتا ہے۔اس لئے وہ ذہنی الجھنوں کا شکار بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر خواہش کی تکمیل عملی صورت میں کر لیتے ہیں یعنی اگر جبلی خواہشات انہیں مجبور کریں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ان جبلی خواہشات کی تکمیل بالخصوص بہیمانہ خواہشات کی آسودگی کے لئے معاشرے کو اپنا ہدف بنائیں۔
ص:40
امیجی نیشن
01
Apr