مسئلہ ۱۷: ۲۲/رمضان المبارک ۱۳۲۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وضو وغسل میں پانی کی کیا مقدار شرعامعین ہے ؟بینوا توجروا۔(بیان فرمائیے اجرپائیے ۔ت)
الجواب
ہم قبل بیان فـــ احادیث ،صاع ومدُورطل کی مقادیربیان کریں کہ فہم معنی آسان ہو۔ صاع ایک پیمانہ ہے چارمُد کا،اور مُدکہ اُسی کو مَن بھی کہتے ہیں ہمارے نزدیک دور طل ہے اور ایک رطل شرعی یہاں کے روپے سے چھتیس ۳۶ روپے بھر کہ رطل بیس۲۰ استارہے اوراستار ساڑھے چار مثقال اور مثقال ساڑھے چار ماشے اور یہ انگریزی روپیہ سواگیارہ ماشے یعنی ڈھائی مثقال، تو رطل شرعی کہ نوے۹۰ مثقال ہوا ،ڈھائی پر تقسیم کئے سے چھتیس۳۶ آئے، توصاع کہ ہمارے نزدیک آٹھ رطل ہے ایک سو اٹھاسی۱۸۸ روپے بھر ہوا یعنی رامپور کے سیر سے کہ چھیانوے۹۶روپے بھرکا ہے پورا تین سیر، اور مُد تین پاؤ۔ اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک صاع پانچ رطل اور ایک ثلث رطل کا ہے اور اس پر اجماع ہے کہ چار مُدکا ایک صاع ہے تو اُن کے نزدیک مُدایک رطل اور ایک ثلث رطل ہوا یعنی رامپوری سیر سے آدھ سیر اور صاع دوسیر۔ اس بحث کی زیادہ تحقیق فتاواے فقیر سے کتاب الصوم وغیرہ میں ہے۔
فــ:مثقال واستار و رطل ومدوصاع کابیان ۔
اب حدیثیں سُنئے:صحیحین میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع الی خمسۃ امداد ویتوضأ بالمد ۱؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے نہاتے اورایک مُدپانی سے وضو فرماتے۔
(۱؎صحیح البخاری کتاب الوضوءباب الوضوء بالمُد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۳
صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹)
صحیح مسلم ومسنداحمد و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وشرح معانی الآثار امام طحاوی میں حضرت سفینہ اور مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ وطحطاوی میں بسند صحیح حضرت جابر بن عبداللہ نیز انہیں کتب میں بطرق کثیرہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتؤضأ بالمد ویغتسل بالصاع ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل فرماتے ۔
(۲؎صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳
مسند احمد بن حنبل عن جابر ۱ /۳۰۳ وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا ۶/ ۲۴۹ المکتب الاسلامی بیروت
شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
سنن الترمذی باب فی الوضو بالمدحدیث ۵۶ دارالفکربیروت ۱ /۱۲۲)
اکثر احادیث اسی طرف ہیں،اور انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث امام طحاوی کے یہاں یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ من مدفیسبغ الوضوء وعسی ان یفضل منہ الحدیث ۱؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے تمام وکمال وضو وسعت وفراغت کے ساتھ فرمالیتے اور قریب تھاکہ کچھ پانی بچ بھی رہتا۔
(۱؎ شرح معافی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶)
اور ابو یعلی وطبرانی وبیہقی نے ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندِ ضعیف روایت کیا: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نصف مُد سے وضو فرمایا۔
(۲؎ مجمع الزوائدبحوالہ الطبرانی فی الکبیر کتاب الطہارۃباب مایکفی من الماء للوضوء الخ دارالکتاب بیروت۱ /۲۱۹)
سُنن ابی داؤد ونسائی میں اُمِّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ فاتی باناء فیہ ماء قدر ثلثی المد ۳؎۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایاگیاجس میں دوتہائی مُد کے قدرپانی تھا۔
(۳؎ سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ باب مایجوزمن الماء فی الوضوء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳)
نسائی کے لفظ یہ ہیں:
فاتی بماء فی اناء قدر ثلثی المد ۴؎۔
ایک برتن میں کہ دو ثلث مُد کے قدر تھا پانی حاضر کیاگیا۔
(۴؎ سنن نسائی، کتاب الطہارۃ باب القدر الذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نور محمدکارخانہ کراچی ۱ /۲۴)
ابن خزیمہ وابن حبان وحاکم کی صحاح میں عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: انہ رأی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بثلث مُدعـــہ ۵؎۔
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھاکہ ایک تہائی مُد سے وضو فرمایا۔
عــہ:ھکذا عزالھم الزرقانی فی شرح المواھب وقد احتاط فنص علی الضبط قائلا ثلث بالافراد ۲؎اھ ونقل البعض عن ابنی خزیمۃ وحبان بنحو ثلثی مُد بالتثنیۃ وان الحافظ ابن حجر قال فی الثلث لم اجدہ کذا قال واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ۔ (م)
عــہ:اسی طرح ان کے حوالے سے علامہ زُرقانی نے شرح مواہب میں ذکرکیااور براہِ احتیاط یہ کہتے ہوئے ضبطِ لفظ کی صراحت کردی کہ ثُلث بصیغہ واحدہے اھ۔ اور بعض نے ابن خزیمہ وابن حبان سے بصیغہ تثنیہ ”بنحوثلثی مد”(تقریباً دو تہائی مد) نقل کیا۔ اور یہ کہ حافظ ابن حجر نے لفظ”ثُلُث” سے متعلق کہا کہ میں نے اسے نہ پایا۔ انہوں نے ایسا ہی لکھا ہے ۔واللہ تعالٰی اعلم۱۲ منہ(ت)
(۲؎شرح الزرقانی علی المواھب ا للدنیہ المقصد التاسع الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۲۵۱
۵؎ المستدرک للحاکم، کتاب الطہارۃ مایجزی من الماء للوضوء مطبوعہ دالفکربیروت ۱ /۱۶۱
صحیح ابن خزیمہ کتاب الطہارۃ باب الرخصۃ فی الوضوء الخ حدیث ۱۱۸ المکتب الاسلامی بیروت ۱/۶۲
موارد الظمأن باب ماجاء فی الوضو حدیث ۱۵۵ المطبعۃ السلفیۃ ص۶۷)
اقول احادیث سے ثابت ہے کہ وضو میں عادت کریمہ تثلیث تھی یعنی ہر عضو تین بار دھونا،اور کبھی دو دو بار بھی اعضاء دھوئے۔
رواہ البخاری عن عبداللّٰہ بن زید وابو داؤد والترمذی وصححہ وابن حبان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضاء مرتین مرتین ۱؎۔
اسے امام بخاری نے عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔اورابوداؤد نے اور ترمذی نے بافادہ تصحیح،اورابن حبان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ نبی نے وضومیں دودوبار اعضاء دھوئے۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء مرتین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸
سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۴۳ دارالفکربیروت ۱ /۱۱۳
مواردالظمأن کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۱۵۷ المطبعۃ السلفیۃ ص۶۷)
رواہ البخاری والدارمی وابو داؤد والنسائی والطحاوی وابن خزیمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مرۃ مرۃ ۱؎۔
اسے بخاری،دارمی،ابوداؤد،نسائی، طحاوی اور ابن خزیمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا،انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو میں ایک ایک بار اعضاء دھوئے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء مرتین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸
سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۵
سنن الدارمی کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ حدیث ۲۔۷ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ ۱/ ۱۴۳
شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الوضوللصلوۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸
صحیح ابن خزیمہ کتاب الوضوباب اباحۃ الوضومرۃ مرۃ حدیث ۱۷۱ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۸۸ )
وبمثلہ رواہ الطحاوی عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وروی ایضا عن امیر المؤمنین عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ۲؎
اور اسی کے مثل امام طحاوی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی روایت کی۔اور امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت کی کہ انہوں نے فرمایا میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک بار اعضادھوئے۔
(۲؎ معانی الآثار، کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)
وعن ابی رافع رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا ثلثا ثلثا ورأیتہ غسل مرۃ مرۃ ۳؎۔
اورحضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین تین بار اعضائے وضو دھوئے اور یہ بھی دیکھا کہ سرکار نے ایک ایک بار دھویا۔(ت)
(۳؎ معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)
غالبا جب ایک ایک بار اعضائے کریمہ دھوئے تہائی مد پانی خرچ ہوا ، اور دودو بار میں دو تہائی ،اور تین تین بار دھونے میں پورا مد خرچ ہوتا تھا ۔
فان قلت لیس فی حدیث ام عمارۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد انما فیہ اتی بماءفی اناء قدر ثلثی مد۔
اگریہ سوال ہوکہ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو تہائی مد سے وضو کیا اس میں صرف اتنا ہے کہ حضورکے پاس ایک برتن حاضر لایاگیاجس میں دوتہائی مُد کی مقدارمیں پانی تھا۔
قلت لیس غرضہا منہ الا بیان قدر ماتوضأ بہ والاکان ذکر قدر الماء اوالاناء فضلا لاطائل تحتہ علی انہا لم تذکر طلبہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم زیادۃ فافاد فحواہ انہ اجتزأ بہ ولعل ھذا ھو الباعث للعلامۃ الزرقانی اذ یقول فی شرح المواھب لابی داؤد عن امّ عمارۃ انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد ۱؎ اھ والا فلفظ ابی داؤد ماقد سقتہ لک۔
قلت(تو میں جواب دوں گا)اس سے ان صحابیہ کامقصود یہی بتانا ہے کہ جتنے پانی سے حضورنے وضو فرمایا اس کی مقدار کیاتھی،اگریہ نہ ہو تو پانی کی مقدار یابرتن کا تذکرہ بے فائدہ و فضول ٹھہر ے گا۔علاوہ ازیں انہوں نے یہ ذکرنہ کیاکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مزید طلب فرمایا تو مضمون حدیث سے مستفادہو کہ اتنی ہی مقدارپرسرکارنے اکتفاء کی۔شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ زُرقانی نے شرح مواہب میں فرمایا کہ اُمّ ِ عمارہ سے ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوتہائی مُد سے وضو فرمایااھ-کیونکہ ابوداؤد کے الفاظ تو وہی ہیں جو میں نے پیش کئے(کہ سرکار نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایا گیاجس میں دوتہائی مُد کے قدر پانی تھا)۔
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ المقصدالتاسع الفصل الاول دارالمعرفۃبیروت ۷ /۲۵۱)
بالجملہ وضو میں کم سے کم تہائی عــہ مُد اور زیادہ سے زیادہ ایک مُد کی حدیثیں آئی ہیں اور حدیث ربیع بنت معوّذ بن عفراء رضی اللہ تعالٰی عنہا: وضأت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء نحو من ھذا الاناء وھی تشیر الی رکوۃ تاخذ مدا او مدا و ثلثارواہ سعید بن منصور فی سننہ وفی لفظ لبعضھم یکون مدا اومدا و ربعا ۱؎ واصل الحدیث عنہا فی السنن الاربعۃ۔
انہوں نے ایک برتن کی طرف جس میں ایک مُد یا ایک مُد اور تہائی مد پانی آتا،اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح کے ایک برتن سے وضو کرایا۔ یہ حدیث سعید بن منصورنے اپنی سنن میں روایت کی- اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ اس میں ایک مُد یا سوا مُد پانی ہوگا۔اورحضرت ربیع سے اصل حدیث سُنن اربعہ میں مروی ہے۔(ت)
عـــہ:ایک حدیث موقوف میں چہارم مد بھی آیاہے کماسیأتی۱۲منہ
(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ص حدیث ۲۶۸۳۷ و ۲۶۸۳۸ موسسۃالرسالہ بیروت ۹ /۴۳۲ و ۴۳۳)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُس برتن سے وضو فرمایا جس میں ایک مُد یا سوا مُد، اور دوسری روایت میں ہے کہ ایک مد یا ایک مُد اور تہائی مُد پانی تھا، تو یہ مشکوک ہے اور شک سے زیادت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں صحیحین وسنن ابی داؤد ونسائی و طحاوی میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک حدیث یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسۃ مکاکی ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکوک سے وضو اور پانچ سے غسل فرماتے۔
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳
سنن النسائی کتاب الطہاۃباب القدرالذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۴
شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷)
مکّوک فــ میں کیلہ ہے اور کیلہ نصف صاع تو مکوک ڈیڑھ صاع ہوا کما فی الصحاح والقاموس وغیرھما فی اقاویل اخر اور ایک صاع کو بھی کہتے ہیں بعض علماء نے حدیث میں یہی مراد لی تو وضو کیلئے چار مُد ہوجائیں گے مگر راجح یہ ہے کہ یہاں مکّوک سے مُد مراد ہے جیسا کہ خود اُنھی کی دیگر روایات میں تصریح ہے والروایات تفسر بعضھا بعضا(اور روایات میں ایک کی تفسیردوسری سے ہوتی ہے ۔ت)۔
فـــ:فائدہ مکوک اورکیلہ کابیان
امام طحاوی نے فرمایا: احتمل ان یکون اراد بالمکوک المد لانھم کانوا یسمون المد مکوکا ۱؎۔
یہ احتمال ہے کہ انہوں نے مکّوک سے مُدمرادلیاہواس لئے کہ وہ حضرات مُد کو مکّوک کہاکرتے تھے(ت)
(۱؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃباب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۳۷۷)
نہایہ ابن اثیر جزری میں ہے: اراد بالمکّوک المد وقیل الصاع والاول اشبہ لانہ جاء فی حدیث اخر مفسرا بالمُد والمکوک اسم للمکیال ویختلف مقدارہ باختلاف اصطلاح الناس علیہ فی البلاد ۲؎۔
انہوں نے مکّوک سے مُد مرادلیا۔اورکہاگیاکہ صاع مراد لیا۔اور اول مناسب ہے اس لئے کہ دُوسری حدیث میں اس کی تفسیر”مُد”سے آئی ہے ۔ اور مکّوک ایک پیمانے کانام ہے۔اس کی مقدار مختلف بلاد میں لوگوں کے عرف کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔(ت)
(۲؎ النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر باب المیم مع الکاف تحت اللفظ مکلک دارالکتب العلمیہ بیروت ۴ /۲۹۸)
رہا غسل، اُس میں کمی کی جانب یہ حدیث ہے کہ صحیح مسلم میں اُم المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: انھا کانت تغتسل ھی والنبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء واحد یسع ثلثۃ امداد اوقریبا من ذلک ۳؎۔
وہ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن میں کہ تین مُد یااس کے قریب کی گنجائش رکھتا نہالیتے۔
(۳؎ صحیح مسلم کتاب الزکوۃباب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)
اس کے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ دونوں کا غسل اُسی تین مُد پانی سے ہوجاتا تو ایک غسل کو ڈیڑھ ہی مُد رہا مگر علماء نے اسے بعید جان کر تین توجیہیں فرمائیں:
اوّل یہ کہ یہ ہر ایک کے جُداگانہ غسل کا بیان ہے کہ حضور اُسی ایک برتن سے جو تین مُد کی قدر تھا غسل فرمالیتے اور اسی طرح میں بھی ،ذکرہ الامام القاضی عیاض(یہ توجیہ امام قاضی عیاض نے ذکرفرمائی ۔ت)
فان قلت : فعلی ھذا یضیع قولھا فی اناء واحد فانما قصدھا بہ افادۃ اجتماعہا معہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی الغسل من اناء واحد کما افصحت بہ فی الروایۃ الاخری کنت اغتسل فــ انا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد تختلف ایدینا فیہ من الجنابۃ رواہ الشیخان ۱؎؎ ،وفی اخری لمسلم من اناء بینی وبینہ واحد فیبادرنی حتی اقول دع لی ۲؎ ۔ وللنسائی من اناء واحد یبادرنی وابادرہ حتی یقول دعی لی وانا اقول دع لی ۳؎ ۔
اگر یہ سوال ہوکہ پھر توان کا”ایک برتن میں”کہنابے کار ہوجاتاہے کہ اس لفظ سے ان کا مقصد یہی بتاناہے کہ وہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایک برتن سے غسل کرتی تھیں، جیساکہ دوسری روایت میں اسے صاف طورپربیان کیا ہے :میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسلِ جنابت کیا کرتے اس میں ہمارے ہاتھ باری باری آتے جاتے-اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا۔اورمسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے:ایک ہی برتن سے جو میرے اور ان کے درمیان ہوتا تو مجھ پر سبقت فرماتے یہاں کہ میں عرض کرتی میرے لیے بھی رہنے دیجئے اورنسائی کی روایت میں یہ ہے :ایک ہی برتن سے ،وہ مجھ سے سبقت فرماتے اور میں ان سے سبقت کرتی،یہاں تک کہ حضور فرماتے:میرے لئے بھی رہنے دو۔اور میں عرض کرتی:میرے لئے بھی رہنے دیجئے۔(ت)
فـــ:مسئلہ جائز ہے کہ زن وشوہردونوں ایک برتن سے ایک ساتھ غسل جنابت کریں اگرچہ باہم سترنہ ہو اور اس وقت متعلق ضرورت غسل بات بھی کرسکتے ہیں مثلا ایک سبقت کرے تودوسراکہے میرے لیے پانی رہنے دو۔
(۱؎صحیح البخاری کتا ب الغسل،باب ھل یدخل یدہ فی الاناء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰
صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۲؎صحیح مسلم کتاب الحیض،باب القدرالمستحب من الماء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۳؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذالک نورمحمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۴۷ )
قلت لایلزم ان لاترید بھذا اللفظ کلما تکلمت بہ الا ھذہ الافادۃ ،فقد ترید ھھنا ان ذلک الاناء الواحد کان یکفیہ اذا اغتسل ولا یطلب زیادۃ ماء وکذلک انا اذا اغتسلت۔
میں جواب دوں گا ضروری نہیں کہ جب بھی وہ یہ لفظ بولیں توانہیں یہی بتانامقصودہو،یہاں اُن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وہی ایک برتن جب حضورغسل فرماتے تو ان کے لئے کافی ہوجاتا اور مزیدپانی طلب نہ فرماتے اوریہی حال میرا ہوتاجب میں نہاتی۔
دوم یہاں مُد سے صاع مراد ہے۔
قالہ ایضا صرفا لہ الی وفاق حدیث الفرق الاتی فانہ ثلثۃ اٰصع واقرہ النووی۔
یہ توجیہ بھی امام قاضی عیاض ہی نے پیش کی تاکہ اس میں اور اگلی حدیث فرق میں مطابقت ہوجائے کیوں کہ فرق تین صاع کا ہوتا ہے ۔امام نووی نے بھی اس توجیہ کوبرقرار رکھا۔
اقول:یہ اس فــ کا محتاج ہے کہ مُد بمعنی صاع زبان عرب میں آتا ہو اور اس میں سخت تامل ہے،صحاح وصراح و مختار وقاموس وتاج العروس لغات عرب ومجمع البحار ونہایہ ومختصر سیوطی لغاتِ حدیث وطلبۃ الطلبہ ومصباح المنیر لغاتِ فقہ میں فقیر نے اس کا پتا نہ پایا اور بالفرض کہیں شاذونادر ورود ہو بھی تو اُس پر حمل تجوز بے قرینہ سے کچھ بہتر نہیں۔
فــ:تطفل علی القاضی عیاض والامام النووی ۔
اما جعل امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز المد بثلثۃ امداد فحادث لایحمل علیہ کلام ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔
لیکن یہ کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مدتین مد کے برابر بنایاتویہ بعدکی بات ہے ،اس پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کلام محمول نہیں ہوسکتا۔(ت)
سوم یہ کہ حدیث میں زیادہ کا انکار نہیں حضور وامّ المومنین معاً تین مُد سے نہائے ہوں اور جب پانی ختم ہوچکا اور زیادہ فرمالیا ہو،
ابداہ الامام النووی حیث قال یجوزا ن یکون وقع ھذا فی بعض الاحوال وزاداہ لما فرغ ۱؎۔
یہ توجیہ امام نووی نے پیش کی ان کے الفاظ یہ ہیں:ہوسکتاہے یہ ایک وقت(مثلاً غسل شروع کرتے وقت)ہو اہو اور جب پانی ختم ہوگیاتودونوں حضرات نے اور لے لیا ہو۔(ت)
(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)
اقول:یہ بھی بعید فــ۱ہے کہ اس تقدیر پر ذکر مقدار عبث وبیکار ہوا جاتا ہے تو قریب تر وہی توجیہ اول ہے۔
فــ۱:تطفل آخرعلی الامام النووی ۔
وانا اقول : لوحمل علی الاشتراک لم یمتنع فقد قدمنا روایۃ انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد وروی عن الامام محمد رحمہ اللّٰہ تعالی انہ قال ان المغتسل لایمکن ان یعم جسدہ باقل من مد ذکرہ العینی فی العمدۃ ۲؎ فافاد امکان تعمیم الجسد بمد فکان المجموع مدا ونصفا واللّٰہ تعالی اعلم۔
اورمیں کہتاہوں:اگر شرکت پرمحمول کرلیاجائے توبھی(اتنی مقدارسے دونوں حضرات کا غسل) محال نہیں،کیوں کہ یہ روایت ہم پیش کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آدھے مُد سے وضو فرمایا۔اورامام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ ایک مُد سے کم پانی ہو توغسل کرنے والاپُورے بدن پر نہیں پہنچا سکتا۔اسے علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں ذکرکیا۔اس کلام سے مستفادہوا کہ ایک مُد ہو تو پورے بدن پر پہنچایا جاسکتاہے توکل ڈیڑھ مُد ہوا(آدھے سے وضو،باقی سے اورتمام بدن-اس طرح تین مُد سے دو کا غسل ممکن ہوا ۱۲ م) واللہ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء بالمد تحت الحدیث ۶۴ /۲۰۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۱۴۱)
اور جانب زیادت میں اس قول کی تضعیف تو اوپر گزری کہ مکّوک سے صاع مراد ہے جس سے غسل کیلئے پانچ صاع ہوجائیں۔ہاں موطائے مالک وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد میں امّ المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق من الجنابۃ ۱؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے غسل جنابت فرماتے تھے اور وہ فَرَق تھا۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ ،باب المقدا رالماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)
فرق فـــ میں اختلاف ہے ، اکثر تین(۳) صاع کہتے ہیں اوربعض دو(۲)صاع۔
فــ:تطفل علی الام القاضی عیاض ۔
ففی الحدیث عند مسلم قال سفٰین والفرق ثلثۃ اصع۲؎ وکذلک ھو نص الامام الطحاوی وقال النووی کذا قالہ الجماھیر۳؎ اھ قال العینی وقیل صاعان۴؎ وقال الامام نجم الدین النسفی فی طلبۃ الطلبۃ ھو اناء یاخذ ستۃ عشر رطلا ۶؎ اھ وھکذا فی نھایۃ ابن الاثیروصحاح الجوھری وکذا نقلہ فی الطلبۃ عن القتبی ونقل عن شرح الغریبین انہ اثنا عشر مدا ۶؎ اھ وقال ابو داؤد سمعت احمد بن حنبل یقول الفرق ستۃ عشر رطلا ۷؎
اس حدیث کے تحت امام مسلم کی روایت میں ہے کہ سفیان نے فرمایا فرق تین صاع ہوتاہے-یہی تصریح امام طحاوی نے فرمائی-اور امام نووی نے فرمایا یہی جمہور کا قول ہے اھ-علامہ عینی نے لکھا:اورکہاگیاکہ دوصاع اھ-امام نجم الدین نسفی نے طلبۃ الطلبہ میں لکھا:یہ ایک برتن ہے جس میں سولہ رطل آتے ہیں اھ-ایسے ہی نہایہ ابن اثیراورصحاع جوھری میں ہے ،اور اسی طر ح اس کو طلبۃ الطلبہ میں قتبی سے نقل کیا ہے، اور شرح غریبین سے نقل کیا ہے کہ یہ بارہ مُد ہوتا ہے اھ-اور ابو داؤد نے کہا:میں نے امام احمد بن حنبل سے سُناکہ فرق سولہ رطل کاہوتاہے۔
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۳؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۴؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل،باب غسل الرجل مع امرأتہ تحت الحدیث۳ /۲۵۰ ۳ /۲۹۰
۵؎ طلبۃ الطلبۃ کتاب الزکوٰۃ دائرۃ المعارف الاسلامیۃ مکران بلوچستان ص۱۹
۶؎ طلبۃ الطلبۃ کتاب الزکوٰۃ دائرۃ المعارف الاسلامیۃ مکران بلوچستان ص۱۹
۷؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب مقدارالماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)
ونقل الحافظ فی الفتح عن ابی عبداللّٰہ الاتفاق علیہ وعلی انہ ثلثۃ اٰصع قال لعلہ یرید اتفاق اھل اللغۃ ۱؎ اھ
اورحافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابوعبد اللہ سے اس پر اور اس پر کہ وہ تین صاع ہوتا ہے اتفاق نقل کیا اور کہاشاید ان کی مراد یہ ہے کہ اہلِ لغت کا اتفاق ہے اھ۔
(۱؎ فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل تحت الحدیث۲۵۰ دارالکتب العلمیہ ۲ /۳۲۶)
اقول ویترا أی لی ان لاخلف فان ستۃ عشر رطلا صاعان بالعراق وثلثۃ اصوع بالحجاز۔
اقول:اورمیرا خیال ہے کہ ان اقوال میں کوئی اختلاف نہیں ا س لئے کہ سولہ رطل دوصاع عراقی اورتین صاع حجازی کے برابر ہوتاہے۔(ت)
امام نووی اس حدیث سے یہ جواب دیتے ہیں کہ پورے فَرَق سے تنہا حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا غسل فرمانا مراد نہیں کہ یہی حدیث صحیح بخاری میں یوں ہے: کنت اغتسل انا والنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد من قدح یقال لہ الفرق۲؎ ۔
میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے وہ ایک قدح تھا جسے فَرَق کہتے۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الغسل تحت الحدیث ۲۵۰ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)
اقول:یہ لفظ فــ اجتماع میں نص نہیں،
فــ:تطفل ثالث علی الامام النووی ۔
کما قدمنا فلا ینبغی الجزم بان الافراد غیر مراد بل لقائل ان یقول مخرج الحدیث الزھری عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فروی عن الزھری مالک ومن طریقہ مسلم وابو داؤد باللفظ الاول۳؎
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا- تواس پرجزم نہیں کرناچاہئے کہ تنہاغسل فرمانا مراد نہیں-بلکہ کہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ اس حدیث کے راوی امام زہری ہیں جنہوں نے حضرت عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی-پھرامام زہری سے امام مالک نے اور ان ہی کی سند سے امام مسلم اور ابو داؤد نے پہلے الفاظ میں روایت کی (کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق)،
(۳؎ مؤطا امام مالک کتاب الطہارۃ،العمل فی غسل الجنابۃ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۳۱
صحیح مسلم کتاب الحیض،باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب مقدار الماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)
وابن ابی ذئب عند البخاری والطحاوی باللفظ الثانی۱؎ تابعہ معمر و ابن جریج عند النسائی۲؎ وجعفر بن برقان عند الطحاوی۳؎ وروی عنہ اللیث عند النسائی وسفٰین بن عیینۃ عندہ وعند مسلم بلفظ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل فی القدح وھو الفرق وکنت اغتسل انا وھو فی الاناء الواحد ولفظ سفٰین من اناء واحد۴؎ فیشبہ ان تکون ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا اتت بحدیثین اغتسالہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من الفرق واغتسالھما من اناء واحد فاقتصر منھما مالک علی الحدیث الاول وجمع بینہما ابن ابی ذئب ومتابعوہ واتی بھما سفیان واللیث مفصلین واللّٰہ تعالی اعلم۔
اور امام بخاری وامام طحاوی کی روایت میں امام زہری سے ابن ابی ذئب نے بلفظ دوم روایت کی(کنت اغتسل اناوالنبی الخ) ابن ابی ذئب کی متابعت امام نسائی کی روایت میں معمراورابن جریج نے ،اورامام طحاوی کی ایک روایت میں جعفر بن برقان نے کی-اورنسائی کی تخریج پر امام زہری سے امام لیث نے اور نسائی ومسلم کی تخریج میں ان سے امام سفٰین بن عیینہ نے ان الفاظ سے روایت کی:رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک قدح میں غسل فرماتے اور وہ فرق ہے – اور میں اور حضور ایک برتن میں غسل کرتے-امام سفٰین کے الفاظ ہیں:”ایک برتن سے ” غسل کرتے-توایسا معلوم ہوتاہے کہ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دو حدیثیں روایت کیں ایک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرق سے غسل فرمانے سے متعلق اور ایک دونوں حضرات کے ایک برتن سے غسل فرمانے سے متعلق-توامام مالک نے دونوں حدیثوں میں سے صرف پہلی حدیث ذکر کی۔اورابن ذئب اور ان کی متابعت کرنے والے حضرات (معمر،ابن جریج)نے دونوں حدیثوں کو ملادیا۔ اورسفیان و لیث نے دونوںکوالگ الگ بیان کیا-اورخدائے برتر ہی کو خوب علم ہے۔(ت)
(۱؎شرح معانی الآثار کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
۲؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر الدلالۃ علی انہ لا وقت فی ذلک نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۴۷
۳؎؎شرح معانی الآثار کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
۴؎صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)
امام طحطاوی فرماتے ہیں:حدیث میں صرف برتن کا ذکر ہے کہ اس ظرف سے بہاتے بھرا ہونا نہ ہونا مذکور نہیں۔
اقول: صرف فــ برتن کا ذکر قلیل الجدوی ہے اس سے ظاہر مفاد وہی مقدار آب کا ارشاد ہے خصوصاً حدیث لیث وسفیان میں لفظ فی سے تعبیر کہ ایک قدح میں غسل فرماتے : اذمن المعلوم ان لیس المراد الظرفیۃ (اس لئے کہ معلوم ہے کہ ظرفیت (قدح کے اندر غسل کرنا)مراد نہیں۔ت) اور حدیث مالک میں لفظ واحد کی زیادت اذ من المعلوم ان لیس المراد نفی الغسل من غیرہ قط (کیونکہ معلوم ہے کہ یہ مراد نہیں کہ اس کے علاوہ کسی برتن سے کبھی غسل نہ کیا ) بہرحال اس قدر ضرور ہے کہ حدیث اس معنی میں نص صریح نہیں زیادت کا صریح نص اُسی قدر ہے جو حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں گزرا کہ پانچ مُد سے غسل فرماتے اور پھر بھی اکثر و اشہر وہی وضو میں ایک مُد اور غسل میں ایک صاع ہے، اور احادیث کے ارشادات قولیہ تو خاص اسی طرف ہیں ۔
فـــ:تطفل ما علی الامام السید الاجل الطحاوی۔
امام احمدعــہ و ابوبکر بن ابی شیبہ و عبد بن حمید واثرم وحاکم وبیہقی جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یجزئ من الغسل الصاع ومن الوضوء المد ۱؎۔
غسل میں ایک صاع اور وضو میں ایک مُد کفایت کرتاہے۔
(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ،مایجزئ من الماء للوضوء…الخ دارالفکر بیروت ۱ /۱۶۱
السنن الکبری کتاب الطہارۃ،باب استحباب ان لا ینقص فی الوضوء… دار صادر بیروت ۱ /۱۹۵
مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۳۷۰
المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارات،باب فی الجنب کم یکفیہ…الخ حدیث۷۰۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۶۶)
عـــہ:زعم شیخ الوھابیۃ الشوکانی ان الحدیث اخرجہ ایضا ابو داؤد وابن ماجۃ بنحوہ اقول کذب فــ۱ علی ابی داؤد و اخطأ فــ۲ علی ابن ماجۃ فان ابا داؤد لم یخرجہ اصلا انما عندہ عن جابر کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع و یتوضأ بالمد۳؎ و ابن ماجہ لم یخرجہ عن جابر بن عبد اللّہ بل عن عبد اللّہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب رضی اللّہ عنہم اھ منہ۔
عـــہ : پیشوائے وہابیہ شوکانی کا زعم ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا اور اس کے ہم معنی ابن ماجہ نے بھی اقول:اس نے ابوداؤد کی طرف تو جھوٹا انتساب کیا اور ابن ماجہ کی طرف نسبت میں خطا کی-اس لئے کہ ابوداؤد نے سرے سے اسے روایت ہی نہ کیا اس کی روایت حضرت جابر سے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے غسل فرماتے اور ایک سے وضو فرماتے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت نہ کی بلکہ عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابوطالب سے روایت کی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
فــ۱:رد علی الشوکانی۔
فــ۲:رد اخر علیہ۔
(۳؎سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب ما یجزئ من الماء فی الوضوء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳)
ابنِ ماجہ سُنن میں حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یجزئ من الوضوء مد و من الغسل صاع ۲؎۔
وضو میں ایک مُد، غسل میں ایک صاع کافی ہے۔
(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الطہارات،باب ماجاء فی مقدار الماء…الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۴)
طبرانی معجم اوسط میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: فذکر مثل حدیث عقیل غیرانہ قال فی مکان من فی الموضعین ۳؎۔
اس کے بعدحدیث عقیل ہی کے مثل ذکر کیافرق یہ ہے کہ دونوں جگہ”من” کے بجائے ”فی” کہا۔(ت)
(۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۷۵۵۱ مکتبۃ المعارف ریاض ۸ /۲۷۳)
امام احمدعــہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یکفی احدکم مدمن الوضوء ۲؎۔
تم میں سے ایک شخص کے وضو کوایک مُد بہت ہے۔
(۲؎ مسند احمدبن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۲۶۴)
عــہ وعزاہ الامام الجلیل فی الجامع الصغیرلجامع الترمذی بلفظ یجزئ فی الوضوء رطلان من ماء ۴؎قال المناوی واسنادہ ضعیف ۵؎اھ لکن العبدالضعیف لم یرہ فی ابواب الطھارۃ من الجامع فاللّٰہ تعالی اعلم اھ منہ غفرلہ (م)
یہ حدیث امام جلال الدین سیوطی نے جامع ترمذی کے حوالے سے ان الفاظ سے جامع صغیرمیں ذکرکی ہے: وضو میں دو رطل پانی کافی ہے۔ علامہ مناوی نے کہا اس کی سند ضعیف ہے اھ۔ لیکن میں نے جامع ترمذی کے ابواب الطہارۃ میں یہ حدیث نہ پائی، فاللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ(ت)
(۴؎الجامع الصغیربحوالہ ت حدیث۹۹۹۷ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲ /۵۸۹
۵؎التیسیر شرح الجامع ا لصغیر تحت الحدیث یجزئ فی الوضوالخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۵۰۷)
ابو نعیم معرفۃ الصحابہ میں ام سعد بنت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : الوضوء مدوالغسل صاع ۳؎۔ وضو ایک مُد اور غسل ایک صاع ہے۔
(۳؎تلخیص الحبیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر کتاب الطہارۃ حدیث ۱۹۴باب الغسل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۸۶)
اقول اب یہاں چند امر تنقیح طلب ہیں:
امر اوّل : صاع اور مُد باعتبار وزن مراد ہیں یعنی دو اور آٹھ رطل وزن کا پانی ہوکہ رامپور کے سیر سے وضو میں تین پاؤ اور غسل میں تین سیر پانی ہوا اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ کے طور پر وضو میں آدھ سیر اور غسل میں دو سیر اور جانب کمی وضو میں پونے تین چھٹانک سے بھی کم اور غسل میں ڈیڑھ ہی سیر یا بااعتبار کیل وپیمانہ یعنی اتنا پانی کہ ناج کے پیمانہ مد یاصاع کوبھردے ظاہرہے کہ پانی ناج سے بھاری ہے توپیمانہ بھرپانی اس پیمانے کے رطلوں سے وزن میں زائد ہوگا کلمات فـــ ائمہ میں معنی دوم کی تصریح ہے اور اسی طرف بعض روایات احادیث ناظر۔
فـــ:تطفل علی العلامۃعلی قاری ۔
امام عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: باب الغسل بالصاع ای بالماء قدرملء الصاع ۱؎۔
باب الغسل بالصاع یعنی اتنے پانی سے غسل جس سے صاع بھر جائے۔(ت)
(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۹۱)
امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیںـ: المراد من الروایتین ان الاغتسال وقع بملء الصاع من الماء ۲؎۔
دونوں روایتوں سے مراد یہ ہے کہ غسل پانی کی اتنی مقدار سے ہوا جس سے صاع بھر جائے (ت)
(۲؎ فتح الباری،شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۳۲۷)
امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: ای بالماء الذی ھو قدر ملء الصاع ۳؎۔
یعنی اتنے پانی سے غسل جو صاع بھرنے کے بقدرہو۔(ت)
(۳؎ارشادالساری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۴۹۰)
نیز عمدۃ القاری میں حدیث طحاوی مجاہد سے بایں الفاظ ذکر کی: قال دخلنا علی عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فاستسقی بعضنا فاتی بعس قالت عائشۃ کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل بملء ھذا قال مجاھد فحررتہ فیما احزر ثمانیۃ ارطال تسعۃ ارطال عشرۃ ارطال قال واخرجہ النسائی حزرتہ ثمانیۃ ارطال ۱؎من دون شک ۔
مجاہد نے کہاہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں گئے تو ہم میں سے کسی نے پانی مانگا۔ایک بڑے برتن میں لایا گیا۔حضرت عائشہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس برتن بھر پانی سے غسل فرماتے تھے۔امام مجاہد نے کہا: میں نے اندازہ کیاتووہ برتن آٹھ رطل،یانورطل،یا دس رطل کاتھا۔امام عینی نے کہا:یہ حدیث امام نسائی نے روایت کی تو اس میں یہ ہے کہ میں نے اسے آٹھ رطل کا اندازہ کیا۔یعنی اس روایت میں بغیر شک کے ہے(ت)
(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۹۲)
اقول : ظاہر ہے فـــ کہ پیمانے ناج کیلئے ہوتے ہیں پانی مکیل نہیں کہ اُس کیلئے کوئی مُدو صاع جُدا موضوع ہوں
فـــ:تطفل آخرعلیہ ۔
بل نص علماؤنا انہ قیمی فاذن لاھو مکیل ولا موزون۔ (بلکہ ہمارے علماء نے تو تصریح کی ہے کہ پانی قیمت والی چیزوں میں ہے جب تووہ نہ مکیل ہے نہ موزون۔ت)
تواندازہ نہ بتایاگیامگر انہیں مُدو صاع سے جو ناج کیلئے تھے اور کسی برتن سے پانی کا اندازہ بتایا جائے تو اُس سے یہی مفہوم ہوگا کہ اس بھر پانی نہ یہ کہ اس برتن میں جتنا ناج آئے اس کے وزن کے برابر پانی۔ وھذا ظاھر جدا فاندفع ماوقع للعلامۃ علی القاری فی المرقاۃ شرح المشکوۃ حیث قال تحت حدیث انس کان صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع المراد بالمد والصاع وزنالا کیلا ۲؎ اھ فھذا قیلہ من قبلہ لم یستند فیہ لدلیل ولا قیل لاحد قبلہ واسمعناک نصوص العلماء والحجۃ الزھراء۔
اور یہ بہت واضح ہے تو وہ خیال دفع ہوگیا جو علامہ علی قاری سے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں واقع ہواکہ انہوں نے حضرت انس کی حدیث” حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور ایک صاع سے غسل فرماتے ” کے تحت لکھاکہ مُد اور صاع سے مراد اتنے وزن بھر پانی ہے اتنے ناپ بھر نہیں اھ۔یہ ضعیف قول خو دان کا ہے جس پر نہ تو انہوں نے کسی دلیل سے استناد کیانہ اپنے پہلے کے کسی شخص کے قول سے استناد کیا۔اورعلماء کے نصوص اور روشن دلیل ہم پیش کرچکے۔
(۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ مشکوۃ المصابیح تحت حدیث ۴۳۹ المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ ۲/ ۱۴۳)
فان قلت الیس قدقال انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ برطلین ویغتسل بالصاع ۱؎ رواہ الامام الطحاوی والرطل من الوزن۔
اگر سوال ہو کہ کیا حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دورطل سے وضو فرماتے اورایک صاع سے غسل فرماتے۔ اسے امام طحاوی نے روایت کیا۔ اوررطل ایک وزن ہے۔
(۱؎عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳ /۲۹۲)
قلت المراد بالرطلین ھوالمدبدلیل حدیثہ المذکور سابقاوالاحادیث یفسر بعضہا بعضا بل قد اخرج الامام الطحاوی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد وھو رطلان ۱؎ فاتضح المراد وبھذا استدل ائمتنا علی ان الصاع ثمانیۃ ارطال ولذا قال الامام الطحاوی بعداخراجہ الحدیث الذی تمسکت بہ فی السؤال فھذا انس قد اخبر ان مد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رطلان والصاع اربعۃ امداد فاذا ثبت ان المدرطلان ثبت ان الصاع ثمانیۃ ارطال ۲؎ اھ فقد جعل معنی قولہ توضأ برطلین توضأ بالمد وھو رطلان کما افصح بہ فی الروایۃ الاخری علی ان الرطل مکیال ایضا کما نص علیہ فی المصباح المنیر ۳؎واللّٰہ تعالی اعلم۔
میں کہوں گادو رطل سے وہی مُد مراد ہے، جس پردلیل خود اُن ہی کی حدیث ہے جو پہلے ذکرہوئی۔ اور احادیث میں ایک کی تفسیر دوسری سے ہوتی ہے بلکہ امام طحاوی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ روایت بھی کی ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور وہ دورطل ہے۔ تو مراد واضح ہوگئی۔اور اسی سے ہمارے ائمہ نے صاع کے آٹھ رطل ہونے پراستدلال کیا ہے اور اسی لئے امام طحاوی نے سوال میں تمہاری پیش کردہ حدیث روایت کرنے کے بعدفرمایا:یہ حضرت انس ہیں جنہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مُد دورطل تھااورصاع چار مُد کا ہوتا ہے توجب یہ ثابت ہوگیاکہ مُد دو رطل ہے تویہ بھی ثابت ہوا کہ صاع آٹھ رطل ہے اھ۔تو امام طحاوی نے ”توضأ برطلین”(دورطل سے وضو فرمایا) کا معنی یہ ٹھہرایا کہ توضأ بالمُدوھو رطلان (ایک مُد سے وضو فرمایا اور وہ دورطل ہے)جیسا کہ دوسری روایت میں اسے صاف بتایا۔علاوہ ازیں رطل ایک پیمانہ بھی ہے جیساکہ مصباح منیر میں اس کی صراحت کی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۳؎المصباح المنیر کتاب الراء تحت لفظ ”رطل ” منشورات دارالھجرہ قم ایران ۱ /۲۳۰)
امر دوم : غسل میں کہ ایک صاع بھر پانی ہے اُس سے مراد مع اُس وضو کے ہے جو غسل میں کیا جاتا ہے یا وضو سے جدا امام اجل طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے معنی دوم پر تنصیص فرمائی اور وہ اکثر احادیث میں ایک صاع اور حدیث انس میں پانچ مُد ہے اُس میں یہ تطبیق دی کہ ایک مُد وضو کا اور ایک صاع بقیہ غسل کا،یوں غسل میں پانچ مُد ہوئے، حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یغتسل بخمس مکاکی روایت کرکے فرماتے ہیں:
یکون الذی کان یتؤضا بہ مدا ویکون الذی یغتسل بہ خمسۃ مکاکی یغتسل باربعۃ منھا وھی اربعۃ امداد وھی صاع ویتوضأ باخرو ھو مدفجمع فی ھذا الحدیث ماکان یتوضأ بہ للجنابۃ وما کان یغتسل بہ ۱؎ لھا وافرد فی حدیث عتبۃ (یعنی الذی فیہ الوضوء بمدوالغسل بصاع) ماکان یغتسل بہ لھا خاصۃ دون ماکان یتوضأ بہ ۲؎ اھ
جتنے پانی سے وضوفرماتے وہ ایک مُد ہوگااورجتنے سے غسل فرماتے وہ پانچ مکّوک ہوگا۔ چار مکّوک۔وہی چار مُد اور چار مُد ایک صاع۔ سے غسل فرماتے۔ اور باقی ایک مکّوک ۔ایک مُد سے وضوفرماتے۔تو اس حدیث میں جتنے سے جنابت کا غسل ووضو فرماتے دونوں کو جمع کردیا۔ اور حدیثِ عتبہ میں(یعنی جس میں یہ ہے کہ ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل ) صرف اُس کو بیان کیا جس سے غسل فرماتے، اُس کوذکرنہ کیاجس سے وضو فرماتے اھ۔
(۱؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷)
اقول : لکن حدیثہ یغتسل بالصاع الی خمسۃ امداد لیس فی التوزیع فی التنویع کما لایخفی ای ان الغسل نفسہ کان تارۃ باربعۃ وتارۃ بخمسۃ سواء ارید بہ اسألۃ الماء علی سائر البدن وحدھا اومع الوضوء۔
اقول : لیکن حضرت انس کی یہ حدیث کہ حضورایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے غسل فرماتے،بیان تقسیم میں نہیں بلکہ بیان تنویع میں ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ یعنی خود غسل ہی کبھی چارمُد سے ہوتااورکبھی پانچ مُد سے ہوتاخواہ اس سے صرف پورے بدن پر پانی بہانا مرادلیں یا اس کے ساتھ وضو بھی ملا لیں۔(ت)
امر سوم : یہ صاع فـــ کس ناج کا تھاظاہرہے کہ ناج ہلکے بھاری ہیں جس پیمانے میں تین سیر جو آئیں گے گیہوں تین سیر سے زیادہ آئیں گے اور ماش اور بھی زائد، ابو شجاع ثلجی نے صدقہ فطر میں ماش یا مسور کا پیمانہ لیا کہ ان کے دانے یکساں ہوتے ہیں تو اُن کا کیل و وزن برابر ہوگا بخلاف گندم یا جو کہ اُن میں بعض کے دانے ہلکے بعض کے بھاری ہوتے ہیں تو دو قسم کے گیہوں اگرچہ ایک ہی پیمانے سے لیں وزن میں مختلف ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو۔ دُرِّمختار میں اسی پر اقتصار کیا اور امام صدرالشریعۃ نے شرح وقایہ میں فرمایا کہ احوط کھرے گیہوں کا صاع ہے۔
فـــ:مسئلہ زیادہ احتیاط یہ ہے کہ صدقہ فطر وفدیہ روزہ ونماز وکفارہ قسم وغیرہ میں نیم صاع گیہوں جوکے پیمانے سے دئیے جائیں یعنی جس برتن میں ایک سو چوالیس روپے بھر جوٹھیک ہموارسطح سے آجائیں کہ نہ اونچے رہیں نہ نیچے اس برتن بھرکرگیہووں کوایک صدقہ سمجھاجائے ہم نے تجربہ کیاپیمانہ نیم صاع جومیں بریلی کے سیرسے کہ سوروپیہ بھرکاہے اٹھنی بھراوپرپونے دوسیرگیہوں آتے ہیں فی کس اتنے دئیے جائیں ۔
اور علامہ شامی نے ردالمحتار میں جو کا صاع احوط بتایا اور حاشیہ زیلعی للسید محمد امین میر غنی سے نقل کیا: ان الذی علیہ مشائخنابالحرم الشریف المکی ومن قبلھم من مشائخھم وبہ کانوا یفتون تقدیرہ بثمانیۃ ارطال من الشعیر ۱؎۔
یعنی حرمِ مکہّ میں ہمارے مشائخ اور ان سے پہلے ان کے مشائخ اس پر ہیں کہ آٹھ رطل جَو سے صاع کا اندازہ کیا جائے اور اکابر اسی پر فتوٰی دیتے تھے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار، کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۷۷ )
اقول ظاہر ہے کہ صاع اُس ناج کا تھا جو اُس زمان برکت نشان میں عام طعام تھا اور معلوم ہے کہ وہاں عام طعام جو تھا گیہوں کی کثرت زمانہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی۔
حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے: لما کثرالطعام فی زمن معٰویۃ جعلوہ مدین من حنطۃ ۲؎۔
جب حضرت معاویہ کے زمانے میں طعام کی فراوانی ہوئی تواسے گیہوں کے دو مُدٹھہرائے (ت)
(۲؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب مقدار صدقۃ الفطر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۲)
شرح صحیح مسلم امام نووی میں ہے: الطعام فی عرف اھل الحجاز اسم للحنطۃ خاصۃ ۱؎۔
طعام اہلِ حجاز کے عرف میں صرف گیہوں کانام ہے۔(ت)
(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی کتاب الزکوۃ باب الامر باخراج زکوۃ الفطر الخ تحت حدیث ۲۲۵۳ دارالفکربیروت ۴ /۲۷۳۲ )
صحیح ابن خزیمہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے : قال لم تکن الصدقۃ علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الا التمرو الزیب والشعیر ولم تکن الحنطۃ ۲؎۔
فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ کھجور، خشک انگور او رجَو سے دیا جاتااور گیہوں نہ ہوتا۔
(۲؎ صحیح ابن خزیمہ، باب الدلیل علی ان الامر الخ حدیث ۲۴۰۶ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۸۵)
صحیح بخاری شریف میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : کان طعامنا یومئذ الشعیر الخ ۳؎
ہمارا طعام اس وقت جَو تھا۔(ت)
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ قبل العید قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۰۴و۲۰۵)
اور اس سے قطع نظر بھی ہوتو شک نہیں کہ مُد وصاع کا اطلاق مُد وصاع شعیر کو بھی شامل، تو اُس پر عمل ضرور اتباع حدیث کی حد میں داخل۔ فقیر نے ۲۷ ماہ مبارک رمضان ۲۷ کو نیم صاع شعیری کا تجربہ کیا جو ٹھیک چار طل جَو کا پیمانہ تھااُس میں گیہوں برابر ہموار مسطح بھر کر تولے تو ثمن رطل کو پانچ رطل آئے یعنی ایک سو چوالیس۱۴۴ روپے بھر جَوکی جگہ ایک سو پچھتر۱۷۵روپے آٹھ آنے بھر گیہوں کہ بریلی کے سیر سے اٹھنی بھر اوپر پَونے دو سیر ہوئے، یہ محفوظ رکھنا چاہئے کہ صدقہ فطر وکفارات وفدیہ صوم وصلاۃ میں اسی اندازہ سے گیہوں اداکرنا احوط وانفع للفقراء ہے اگرچہ اصل مذہب پر بریلی کی تول سے چھ۶ روپے بھر کم ڈیڑھ سیر گیہوں ہیں۔ پھر اُسی پیمانے میں پانی بھر کر وزن کیا تو دو سو چودہ ۲۱۴ روپے بھر ایک دوانی کم آیا کہ کچھ کم چھ رطل ہوا تو تنہا وضوفـــ۱ کا پانی رامپوری سیر سے تقریباً آدھ پاؤ سیر ہوا اور باقی غسل کا قریب ساڑھے چار سیر کے، اور مجموع غسل کا چھٹانک اوپر ساڑھے پانسیر سے کچھ زیادہ۔
فــ۱:مسئلہ تنہاوضوکامسنون پانی رامپوری سیرسے کہ چھیانوے روپے بھرکاہے تقریباآدھ پاؤ اوپر سیر بھر ہے اورباقی غسل کاساڑھے چارسیر کے قریب ،مجموع غسل کاچھٹانک اوپرساڑھے پانسیر سے کچھ زیادہ۔
یہ بحمد اللہ تعالٰی قریب قیاس ہے بخلاف اس کے اگر تنقیحات مذکورہ نہ مانی جائیں تو مجموع غسل کا پانی صرف تین سیر رہتا ہے اور امام ابو یوسف کے طور پر دوہی سیر، اُسی میں وضو اُسی میں غسل اور ہر عضو پر تین تین بار پانی کا بہنا یہ سخت دشوار بلکہ بہت دُور ازکار ہے۔
فائدہ : فــ۱ اُن پانیوں کے بیان میں جو اس حساب سے جُدا ہیں:
فــ۱:مسئلہ ان پانیوں کابیان جواس حساب کے علاوہ ہیں ۔
(۱) آبِ استنجاء ہمارے فـــ۲ علما نے وضو کی تقسیم یوں فرمائی ہے کہ آدمی موزوں پر مسح کرے اور استنجے کی حاجت نہ ہوتونیم مُدپانی کا فی ہے اور موزے اور استنجا دونوں ہوں یا دونوں نہ ہوں تو ایک مُد، اور موزے نہ ہوں اور استنجا کرنا ہو تو ڈیڑھ مُد۔
فــ۲:مسئلہ حالات وضوپرمسنون پانی کے اختلافات اوریہ کہ استنجے کے لئے چھٹانک آدھ سیرپانی چاہئے۔
حلیہ میں ہے: روی الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی الوضوء ان کان متخففا ولا یستنجی کفاہ رطل لغسل الوجہ والیدین ومسح الرأس والخفین وان کان یستنجی کفاہ رطلان رطل للاستنجاء ورطل للباقی وان لم یکن متخففا ویستنجی کفاہ ثلثۃ ارطال رطل للاستنجاء ورطل للقدمین ورطل للباقی ۱؎۔
امام حسن بن زیادنے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وضو بارے میں روایت کی ہے کہ اگر موزے پہنے ہیں اوراستنجا نہیں کرنا ہے توچہرہ اور دونوں ہاتھوں کے دھونے اور سر اور موزوں کے مسح کے لئے ایک رطل کافی ہے۔اوراگر استنجابھی کرنا ہے تو دو رطل۔ایک رطل استنجا کے لئے اورایک رطل باقی کے لئے اوراگر موزے نہیں ہیں اوراستنجاکرنا ہے توتین رطل کفایت کریں گے،ایک رطل استنجا کے لئے ایک رطل دونوں پاؤں کے لئے، اورایک رطل باقی کے لئے۔(ت)
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
(۲) ظاہر ہے کہ اگر بدن پر کوئی نجاست حقیقیہ ہو جیسے حاجتِ غسل میں ران وغیرہ پر منی تو اس کی تطہیر کاپانی اس حساب میں نہیں اور یہیں سے ظاہر کہ بعد جماع اگر کپڑا نہ ملے تو پانی کہ اب استنجے کو درکار ہوگا معمول سے بہت زائد ہوگا۔
(۳)پیش از استنجا تین (فــ۱)بار دونوں کلائیوں تک دھونا مطلقاً سنّت ہے اگرچہ سوتے سے نہ جاگا ہو یہ اُس سنّت سے جُداہے کہ وضو کی ابتدا میں تین تین بار ہاتھ دھوئے جاتے ہیں سنّت یوں ہے کہ تین بار ہاتھ دھو کر استنجا کرے پھر آغاز وضو میں باردیگر تین بار دھوئے پھر منہ فـــ۲ دھونے کے بعد جوہاتھ کہنیوں تک دھوئے گااُس میں ناخن دست سے کہنیوں کے اوپر تک دھوئے تو دونوں کفدست تین مرتبہ دھوئے جائیں گے ہر مرتبہ تین تین بار۔اخیر کے دونوں داخل حساب وضو ہیں اور اوّل خارج، ہاں اگر استنجا کرنا نہ ہوتو دو ہی مرتبہ تین تین بار دھونا رہے گا۔
فـــ۱:مسئلہ:استنجے سے پہلے تین بار دونو ں ہاتھ کلائیوں تک دھونا سنت ہے اگرچہ سوتے سے نہ اٹھاہو ہاں سوتے سے اٹھا اور بدن پر کوئی نجاست تھی توزیادہ تاکید یہاں تک کہ سنت مؤکدہ ہے۔
فـــ۲:مسئلہ وضو کی ابتداء میں جو دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین تین بار دھوئے جاتے ہیں سنت یہ ہے کہ منہ دھونے کے بعد جوہاتھ دھوئے اس میں پھر دونوں کفدست کو شامل کرلے سر ناخن سے کہنیوں کے اوپر تک تین بار دھوئے۔
درمختار میں ہے: (سنتہ البداءۃ بغسل الیدین) الطاھرتین ثلثا قبل الاستنجاء وبعدہ وقیدالاستیقاظ اتفاقی (الی الرسغین وھو) سنۃ (ینوب عن الفرض) ویسن غسلہماایضامع الذارعین ۱؎ اھ ملتقطا۔
وضو کی سنت گٹوں تک دونوں پاک ہاتھوں کے دھونے سے ابتدا کرنا۔ تین بار استنجا سے پہلے اور اس کے بعدبھی۔ اور نیند سے اٹھنے کی قید،اتفاقی ہے اور یہ ایسی سنت ہے جو فرض کی نیابت کردیتی ہے۔اور کلائیوں کے ساتھ بھی ہاتھوں کو دھونامسنون ہے اھ ملتقطا(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۰و۲۱)
ردالمحتار میں ہے: خص المصنف بالمستیقظ تبرکابلفظ الحدیث والسنۃ تشمل المستیقظ وغیرہ وعلیہ الاکثرون اھ وفی النھر الاصح الذی علیہ الاکثر انہ سنۃ مطلقالکنہ عند توھم فــ النجاسۃ سنۃ مؤکدۃ کما اذا نام لاعن استنجاء اوکان علی بدنہ نجاسۃ وغیر مؤکدۃعند عدم توھمھا کما اذا نام لاعن شیئ من ذلک اولم یکن مستیقظاعن نوم اھ ونحوہ فی البحر ۱؎اھ۔
مصنّف نے نیندسے اٹھنے والے کے ساتھ لفظ حدیث سے برکت حاصل کرنے کے لئے کلام خاص کیا۔اورسنت نیند سے اٹھنے والے کے لئے بھی اور اس کے علاوہ کے لئے بھی ہے۔ اسی پر اکثر حضرات ہیں اھ۔النہرالفائق میں ہے:اصح جس پر اکثرہیں،یہ ہے کہ وہ مطلقاسنت ہے لیکن نجاست کا احتمال ہونے کی صورت میں سنتِ مؤکدہ ہے مثلاً بغیراستنجاکے سویاہو،یاسوتے وقت اس کے بدن پرکوئی نجاست رہی ہو۔اور نجاست کا احتمال نہ ہونے کی صورت میں سنّتِ غیر مؤکدہ ہےمثلاً ان میں سے کسی چیز کے بغیر سویا ہویانیند سے اٹھنے کی حالت نہ ہو۔اھ۔اسی کے ہم معنی بحر میں بھی ہے اھ
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۵)
فـــــ:مسئلہ بدن پر کوئی نجاست ہومثلاتر خارش ہے یازخم یاپھوڑا یا پیشاب کے بعد بے استنجاسورہا کہ پسینہ آکر تری پہنچنے کااحتمال ہے جب تو گٹوں تک ہاتھ پہلے دھونا سنت مؤکدہ ہے اگرچہ سویانہ ہو جب کہ ہاتھ کااس نجاست پر پہنچنا محتمل ہو اور اگر بدن پر نجاست نہیں تو ان کا دھونا سنت ہے مگر مؤکدہ نہیں اگرچہ سو کر اٹھاہو یوں ہی اگر نجاست ہے اوراس پر ہاتھ نہ پہنچنا معلوم ہے یعنی جاگ رہاہے اوریادہے کہ ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے تواس صورت میں بھی سنت مؤکدہ نہیں ہاں سنت مطلقا ہے۔
اقول : و وجہہ ان النجاسۃ اذا کانت متحققۃ کمن نام غیرمستنج واصابۃ الید فی النوم غیر معلومۃ کانت النجاسۃ متوھمۃ امااذا لم تکن نفسھامتحققۃ فالتنجس بالاصابۃ توھم علی توھم فلا یورث تاکدالاستنان ۔
اقول : اس کی وجہ یہ ہے کہ نجاست جب متحقق ہے۔جیسے اس کے لئے جوبغیراستنجاکے سویاہو۔ اورنیند میں نجاست پر ہاتھ کاپہنچنا معلوم نہیں ہے توہاتھ میں نجاست لگنے کا صرف احتمال ہے لیکن جب خودنجاست ہی متحقق نہیں تو ہاتھ میں نجاست لگنے کااحتمال دراحتمال ہے اس لئے اس سے مسنونیت مؤکد نہ ہوگی۔
فان قلت : الیس ان النوم مظنۃ الانتشاروالانتشارمظنۃ الامذاء والغالب کالمتحقق فالنوم مطلقا محل التوھم۔
اگریہ سوال ہوکہ کیا ایسانہیں کہ نیند انتشارآلہ کا مظنّہ ہے، اور انتشارمذی نکلنے کامظنّہ ہے۔ اور گمان غالب متحقق کاحکم رکھتا ہے تونیندمطلقاً احتمال نجاست کی جگہ ہے۔
قلت : بَیَّنَّا فی رسالتنا الاحکام والعلل ان الانتشار لیس مظنۃ الامذاء بمعنی المفضی الیہ غالبا وقد نص علیہ فی الحلیۃ
میں کہوں گا ہم نے اپنے رسالہ ”الاحکام والعلل” میں بیان کیا ہے کہ انتشار مذی نکلنے کا مظنہ اس معنی میں نہیں کہ یہ اکثر خروجِ مذی تک موصل ہوتاہے۔ حلیہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔
فان قلت انما علق فی الحدیث الحکم علی مطلق النوم وعللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بقولہ فانمالایدری این باتت یدہ۱؎ والنوم لاعن استنجاء ان اریدبہ نفیہ مطلقا فمثلہ بعیدعن ذوی النظافۃ فضلاعن الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وھم المخاطبون اولا بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی اذااستیقظ احدکم من نومہ۱؎ وان ارید خصوص الاستنجاء بالماء فالصحیح المعتمدان الاستنجاء بالحجر مطھراذا لم تتجاوزالنجاسۃ المخرج اکثرمن قدرالدرھم کمابینتہ فیماعلقتہ علی ردالمحتارفلا یظھر فرق بین الاستنجاء بالماء وترکہ فی ایراث التوھم وعدمہ۔
پھر اگر یہ سوال ہو کہ حدیث میں اس حکم کو مطلق نیندسے متعلق فرمایا ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس ارشاد سے اس کی علّت بیان فرمائی ہے کہ”وہ نہیں جانتاکہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا”۔اگریہ کہئے کہ لوگ بغیر استنجا کے سوتے تھے اس لئے یہ ارشاد ہوا تواس سے اگر یہ مراد ہے کہ مطلقاً استنجا ہی نہ کرتے تھے توایساتوہر صاحبِ نظافت سے بعید ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تو اور زیادہ بعید ہے اور وہی حضرات اولین مخاطب ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کے کہ ”جب تم میں سے کوئی نیند سے اٹھے۔اور اگر یہ مراد ہے کہ پانی سے استنجا نہ کرتے تھے تو صحیح معتمد یہ ہے کہ پتھر کے ذریعہ استنجا سے بھی طہارت ہوجاتی ہے جب کہ نجاست قدر درہم سے زیادہ مخرج سے تجاوزنہ کرے، جیسا کہ ردالمحتارپرمیں نے اپنے حواشی میں بیان کیا ہے تواحتمالِ نجاست پیدا کرنے اور نہ کرنے میں پانی سے استنجا کرنے اور نہ کرنے کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں۔
(۱؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ حدیث ۲۴ دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)
(سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الرجل یستیقظ من منامہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲)
(۱؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ حدیث ۲۴ دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)
قلت : الحدیث لافادۃ الاستنان اماتاکدہ عند تحقق النجاسۃ فی البدن فبالفحوی ۔
قلت(میں کہوں گا)حدیث مسنونیت بتانے کے لئے ہے اوربدن میں نجاست متحقق ہونے کے وقت اس سنّت کامؤکدہونا مضمونِ کلام سے معلوم ہوا۔
فان قلت ھذا البحرقائلا فی البحراعلم ان الابتداء بغسل الیدین واجب اذاکانت النجاسۃ محققۃ فیھما وسنۃ عند ابتداء الوضوء وسنۃ مؤکدۃ عند توھم النجاسۃ کمااذا استیقظ من النوم ۲؎ اھ فھذانص فی کون کل نوم موجب تاکداالاستنان۔
اگرسوال ہوکہ محقق صاحبِ بحر، البحرالرائق میں یہ لکھتے کہ:واضح ہوکہ دونوں ہاتھ دھونے سے ابتدأ واجب ہے جب ہاتھوں میں نجاست ثابت ہواور ابتدائے وضوکے وقت سنّت ہے،اور احتمالِ نجاست کے وقت سنّتِ مؤکدہ ہے جیسے نیند سے اٹھنے کے وقت اھ۔تو یہ عبارت اس بارے میں نص ہے کہ ہر نیند اس عمل کے سنّتِ مؤکدہ ہونے کاسبب ہے۔
(۲؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۷و۱۸)
قلت : نعم فــ ارسل ھناماابان تقییدہ بعداسطراذیقول علم بماقررناہ ان مافی شرح المجمع من ان السنۃ فی غسل الیدین للمستیقظ مقیدۃ بان یکون نام غیرمستنج اوکان علی بدنہ نجاسۃ حتی لولم یکن کذلک لایسن فی حقہ ضعیف او المراد نفی السنۃ المؤکدۃ لااصلہا ۱؎ اھ لاجرم ان قال فی الحلیۃ ھو مع الاستیقاظ اذاتوھم النجاسۃ اکد ۲؎ اھ فلم یجعل کل نوم محل توھم۔
میں کہوں گاہاں یہاں پرانہوں نے مطلق رکھا مگر چند سطروں کے بعد اس کی قید واضح کردی ہے،آگے وہ فرماتے ہیں:ہماری تقریرسابق سے معلوم ہواکہ شرح مجمع میں جولکھا ہے کہ”نیند سے اٹھنے والے کے لئے دونوں ہاتھ دھونے کامسنون ہونا اس قید سے مقید ہے کہ بغیر استنجاسویا ہویاسوتے وقت اس کے بدن پر کوئی نجاست رہی ہویہاں تک کہ اگر یہ حالت نہ ہو تو اس کے حق میں سنّت نہیں ہے”۔(شرح مجمع کایہ قول)ضعیف ہے۔یااس سے مرادیہ ہوکہ سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے،یہ نہیں کہ سرے سے سنّت ہی نہیں اھ۔یہی وجہ ہے کہ حلیہ میں کہا:نیندسے اٹھنے کے وقت جب احتمالِ نجاست ہوتو یہ زیادہ مؤکد ہے اھ۔توانہوں نے ہرنیند کو محلِ احتمال نہ ٹھہرایا۔
ف:تطفل علی البحر۔
(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۸)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول : وھو معنی قول الفتح قیل سنۃ مطلقاللمستیقظ وغیرہ وھوالاولی نعم مع الاستیقاظ وتوھم النجاسۃ السنۃ اٰکد ۳؎ اھ فارادبالواوالاجتماع لترتّب الحکم لامجرد التشریک فی ترتبہ وان کان کلامہ مطلقافی المستیقظ وغیرہ والتوھم غیرمختص بالمستیقظ علی ان السنن الغیرالمؤکدۃ بعضھااٰکد من بعض فافھم۔
اقول یہی فتح القدیر کی اس عبارت کابھی معنی ہے کہ :کہاگیانیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے لئے یہ مطلقاسنت ہے اور یہی قول اولٰی ہے، ہاں نیند سے اٹھنے اورنجاست کا احتمال ہونے کی صورت میں سنّت زیادہ مؤکد ہے اھ۔واؤ(اور) سے ان کی مراد یہ ہے کہ نیند سے اٹھنااور نجاست کااحتمال ہونادونوں باتیں جمع ہوں توسنت مؤکدہ ہے یہ مراد نہیں کہ نیند سے اٹھے جب بھی سنّتِ مؤکدہ اور احتمالِ نجاست ہوجب بھی سُنّتِ مؤکدہ اگرچہ ان کا کلام نیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے حق میں مطلق ہے اور احتمال نجاست ہونا نیند سے اٹھنے والے ہی کے لئے خاص نہیں۔ علاوہ ازیں سُننِ غیر مؤکدہ میں بعض سنّتیں بعض دیگر کی بہ نسبت زیادہ مؤکدہوتی ہیں۔تو اسے سمجھو۔
(۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۱۹)
(۴) اقول اگرچہ فـــ مسواک ہمارے نزدیک سنّتِ وضوہے خلافاللامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فعندہ سنۃ الصلاۃ کمافی البحر وغیرہ (بخلاف امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کے کہ ان کے نزدیک سنّت نمازہے جیسا کہ بحر وغیرہ میں ہے۔ ت) ولہٰذا جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کیلئے مسواک کرنا مطلوب نہیں جب تک منہ میں کسی وجہ سے تغیر نہ آگیا ہو کہ اب اس دفع تغیر کیلئے مستقل سنّت ہوگی،ہاں وضوبے مسواک کرلیا ہو تو اب پیش از نماز کرلے کما فی الدروغیرہ (جیساکہ در وغیرہ میں ہے۔ت) مگر اُس کے وقت فــ۲ میں ہمارے یہاں اختلاف ہے بدائع وغیرہ معتمدات میں قبل وضو فرمایااور مبسوط وغیرہ معتبرات میں وقت مضمضہ یعنی وضو میں کُلّی کرتے وقت ۔
فـــ: مسئلہ مسواک ہمارے نزدیک نماز کے لئے سنت نہیں بلکہ وضو کے لئے ،تو جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کے لئے اس سے مسواک کامطالبہ نہیں جب تک منہ میں کوئی تغیر نہ آگیا ہو ہاں اگروضو بے مسواک کر لیاتھا تو اب وقت نماز مسواک کر لے ۔
فـــ۲:مسواک کے وقت میں ہمارے علماء کو اختلاف ہے کہ قبل وضو ہے یا وضو میں کلی کرتے وقت اوراس بارہ میں مصنف کی تحقیق ۔
حلیہ میں ہے : وقت استعمالہ علی مافی روضۃ الناطفی والبدائع ونقلہ الزاھدی عن کفایۃ البیھقی والوسیلۃ والشفاء قبل الوضوء وربما یشھدلہ مافی صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انہ تسوک وتوضأعــہ ثم قام فصلی وفی سنن ابی داؤد عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہاان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان لا یرقد من لیل ولا نھارفیستیقظ الا تسوک قبل ان یتوضأ وفی المحیط وتحفۃ الفقھاء وزادالفقہاء ومبسوط شیخ الاسلام محلۃ المضمضۃ تکمیلا للانقاء واخرج الطبرانی عن ایوب قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ استنشق ثلثاوتمضمض وادخل اصبعہ فی فمہ وھذا ربمایدل علی ان وقت الاستیاک حالۃ المضمضۃ فان الاستیاک بالاصبع بدل عن الاستیاک بالسواک والاصل کون الاشتغال بالبدل وقت الاشتغال بالاصل ۱؎ اھ مختصرا۔
مسواک کے استعمال کاوقت قبل وضو ہے۔ایسا ہی ر وضۃ الناطفی اور بدائع میں ہے اور زاہدی نے اسے کفایۃ البیہقی، وسیلہ اورشفا سے نقل کیاہے۔اوراس پرکچھ شہادت صحیح مسلم کی اس حدیث سے ملتی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمائی کہ سرکار نے مسواک کی اور وضو کیا پھر اٹھ کرنماز اداکی۔اورسنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دن یا رات میں جب بھی سوکربیدار ہوتے تو وضوکرنے سے پہلے مسواک کرتے۔ اورمحیط،تحفۃ الفقہا، زادالفقہا اور مبسوط شیخ الاسلام میں ہے کہ مسواک کاوقت کُلّی کرنے کی حالت میں ہے تاکہ صفائی مکمل ہو جائے ۔ اورطبرانی نے حضرت”ایوب”سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے توتین بار ناک میں پانی لے جاتے اور کُلی کرتے اورانگلی منہ میں داخل کرتے۔اس حدیث سے کچھ دلالت ہوتی ہے کہ مسواک کاوقت کُلی کرنے کی حالت میں ہے اس لئے کہ انگلی استعمال کرنامسواک استعمال کرنے کابدل ہے اورقاعدہ یہ ہے کہ بدل میں مشغولی اسی وقت ہو جس وقت اصل میں مشغولیت ہوتی اھ مختصراً۔
عــہ : ھکذاھو فی نسختی الحلیۃ بالواو والذی فی صحیح مسلم رجع فتسوک فتوضأ ثم قام فصلی ۱؎ ولعلہ اظھردلالۃ علی المراد اھ
میرے نسخہ حلیہ میں اسی طرح وتوضّأ(اور وضوکیا) واؤ کے ساتھ ہے۔ اورصحیح مسلم میں یہ ہے : رجع فتسوک فتوضأثم قام فصلی (لوٹ کرمسواک کی پھروضوکیاپھر اٹھ کرنمازادا کی) اورشاید دلالت مقصودمیں یہ زیادہ ظاہر ہے اھ۔ت)
(۱؎صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب السواک قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۸)
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول ھکذافی نسختی الحلیۃ عن ایوب فان کان عن ابی ایوب رضی اللّٰہ تعالی عنہ واسقط الناسخ والا فمرسل والظاھرالاول فان للطبرانی حدیثاعن ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی صفۃ الوضوء لکن لفظہ کمافی نصب الرایۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ تمضمض واستنشق وادخل اصابعہ من تحت لحیتہ فخللھا ۲؎ اھ فاللّٰہ تعالی اعلم وعلی کل فـــ یخلو عن ابعاد النجعۃ فقداخرج الامام احمد فی مسندہ عن امیر المؤمنین علی کرم اللّٰہ تعالی وجہہ انہ دعا بکوز من ماء فغسل وجہہ وکفیہ ثلثا وتمضمض ثلثا فادخل بعض اصابعہ فی فیہ وقال فی اخرہ ھکذاکان وضوء نبی ۱؎ اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ونحوہ عندعبدبن حمیدعن ابی مطرعن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اقول میرے نسخہ حلیہ میں”عن ایوب” (ایوب سے ) ہے۔اگریہ اصل میں عن ابی ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے اور کاتب سے”ابی” چھوٹ گیاہے جب تومسندہے ورنہ مرسل ہے اور ظاہراول ہے۔اس لئے کہ طبرانی کی ایک حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے طریقہ وضو کے بارے میں آئی ہے۔لیکن ا س کے الفاظ نصب الرایہ کے مطابق۔ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو کُلّی کرتے اورناک میں پانی ڈالتے اور اپنی انگلیاں داڑھی کے نیچے سے ڈال کرریش مبارک کا خلال کرتے اھ۔توخدائے برترہی کو خوب علم ہے۔ بہر حال اس حدیث سے استناد تلاش مقصود میں قریب چھوڑکردُور جانے کے مرادف ہے اس لئے کہ امام احمد نے مسند میں امیر المومنین حضرت علی کرّم اللہ تعالٰی وجہہ سے روایت فرمائی ہے کہ انہوں نے ایک کُوزہ میں پانی منگا کر چہرے اورہتھیلیوں کوتین بار دھویااور تین بار کلی کی تو اپنی ایک انگلی منہ میں لے گئے۔اوراس کے آخر میں یہ فرمایا:اسی طرح خداکے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وضوتھا۔اوراسی کے ہم معنی عبد بن حمید کی حدیث ہے جو ابو مطر کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔
فـــ : تطفل علی الحلیۃ
(۲؎ نصب الرایۃ فی تخریج احادیث ھدایہ کتاب الطہارات اماحدیث ابی ایوب نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور ۱ /۵۵)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۵۱)
اقول : بل لربما تبقی الحفنۃ باقیۃ فضلا عن الکفۃ والدلیل علیہ ھذا الحدیث الذی ذکرنا تخریجہ عن الامام احمد وابی داؤد وابن خزیمۃ وابو یعلی والامام الطحاوی وابن حبان والضیاء عن ابن عباس عن علی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وعلیہم وسلم حیث قال بعد ذکر غسل الوجہ بثلث حفنات کما تقدم ثم اخذ بکفہ الیمنی قبضۃ من ماء فصبہا علی ناصیتہ فترکہا تستن علی وجہہ ثم غسل ذراعیہ الی المرفقین ثلثا ثلثا۱؎ الحدیث وھذا ایضا معلوم مشاھد۔
اقول : بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے لینے پر بھی کچھ حصہ باقی رہ جائے گا صرف ہتھیلی بھر لینے کی توبات ہی کیاہے۔ اس پر دلیل یہی حدیث ہے جس کی تخریج ہم نے امام احمد،ابوداؤد،ابن خزیمہ، ابو یعلی، امام طحاوی، ابن حبان اور ضیاء سے ذکر کی، جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے اس میں جیسا کہ گزرا تین لپ سے چہرہ دھونے کے تذکرے کے بعد ہے، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے مٹھی بھرپانی لے کر پیشانی پر ڈال کر اسے چہرے پر بہتا چھوڑدیا۔ پھر اپنی کلائیوںکوکہنیوں تک تین تین بار دھویا۔ یہ بھی تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)
وبالجملۃ لولم یصرف حدیث الغرفۃ عن ظاھرہ لرجع الغسل الی الدھن وھو خلاف الروایۃ والدرایۃ بل الاجماع والروایۃ الشاذۃ عن الامام الثانی رحمہ اللّٰہ تعالی مؤولۃ کما فی ردالمحتار عن الحلیۃ عن الذخیرۃ وغیرھا فاذن لایبقی الا ان نقول انالا نقدر علی مثل مافعل ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما تلک المرۃ فضلا عن فعل صاحب الاعجاز الجلیل المُرْوی مرار اللجمع الجزیل بالماء القلیل علیہ من ربہ اعلی صلوۃ واکمل تبجیل۔ ویقرب منہ اواغرب منہ ماوقع فی سنن سعید بن منصور عن الامام الاجل ابرھیم النخعی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال لم یکونوا یلطموا وجوھھم بالماء وکانوا اشد استبقاء للماء منکم فی الوضوء وکانوا یرون ان ربع المد یجزئ من الوضوء وکانوا صدق ورعا واسخی نفسا واصدق عندالباس۱؎۔
الحاصل اگرچُلّو لینے والی حدیث کو اس کے ظاہر سے نہ پھیریں تودھونا بس ملنا ہو کر رہ جائے گا۔اوریہ روایت،درایت بلکہ اجماع کے بھی خلاف ہے۔۔۔ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے جو شاذروایت آئی ہے وہ مؤول ہے جیسا کہ ردالمحتار میں حلیہ سے، اس میں ذخیرہ وغیرہا سے نقل ہے۔ تاویل نہ کریں تو بس یہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس بار حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جس طرح وضوکیاویسے وضو پرہمیں قدرت نہیں۔ اوران کے عمل کی تو بات ہی اور ہے جو ایسے عظیم اعجاز والے ہیں کہ بار ہا بڑے لشکر کو قلیل پانی سے سیراب کردیا۔ان پران کے رب کی جانب سے اعلٰی واکمل درود وتحیّت ہو۔اور اسی سے قریب یا اس سے بھی زیادہ عجیب وہ ہے جو سُنن سعید بن منصور میں اما م اجل ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت آئی ہے کہ انہوں نے فرمایا: وہ حضرات اپنے چہروں پر زورسے پانی نہ مارتے تھے اور وضومیں وہ تم سے بہت زیادہ پانی بچانے کی کوشش رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ چوتھائی مُدوضو کے لئے کافی ہے اس کے ساتھ وہ سچے ورع وپرہیز گاری والے، بہت فیاض طبع، اورجنگ کے وقت نہایت ثابت قدم بھی تھے۔
(۱؎کنزالعمال بحوالہ ص حدیث ۲۰۷۲۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۷۳)
اقول : فلا ادری کیف اجتزؤا بربع ما جعلہ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مجزئابل لایظن بھم انھم قنعوا بالفرائض دون السنن فاذن یکفی لغسل الیدین الی الرسغین والمضمضۃ والاستنشاق وغسل الوجہ والیدین الی المرفقین والرجلین الی الکعبین کل مرۃ سدس رطل من الماء وھذا مما لایعقل ولا یقبل الا بمعجزۃ نبی اوکرامۃ ولی صلی اللّٰہ تعالی علی الانبیاء والاولیاء وسلم۔
اقول : نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جسے کافی قرار دیا(ایک مد۔دو رطل) معلوم نہیں اس کے چوتھائی سے ان حضرات نے کیسے کفایت حاصل کرلی، بلکہ ان کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کیاجاسکتا کہ سنتیں چھوڑ کرانہوں نے صرف فرائض پرقناعت کرلی تو(سنتوں کی ادائیگی کے ساتھ چوتھائی مُد میں تین تین بار جب انہوں نے سارے اعضاء دھوئے۱۲م)لازم ہے کہ گُٹّو ں تک دونوں ہاتھ دھونے ،کُلی کرنے ، ناک میں پانی ڈالنے،چہرہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھ، اور ٹخنوں تک دونوں پاؤں ہرایک کے ایک بار دھونے میں صرف ۶/۱رطل پانی کافی ہوجاتاتھا۔یہ عقل میں آنے والی اور ماننے والی بات نہیں مگر کسی نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت ہی سے ایسا ہوسکتا ہے،تمام انبیاء اور اولیاپرخدائے برترکادرودوسلام ہو۔
فان قلت مایدریک لعل المراد بالمد المد العمری المساوی لصاع النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الاربعا فیکون ربع المد ثلثۃ ارباع المد النبوی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم۔
اگر کہئے آپ کو کیا معلوم شاید مُد سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالٰی کا مُد مرادہوجوچوتھائی کمی کے ساتھ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صاع کے برابر تھا تو وہ چوتھائی مُد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تین چوتھائی(۴/۳) مُد کے برابر ہوگا۔
قلت کلا فان ابرھیم سبق خلافۃ عمر ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنھما مات فـــ سنۃ خمس اوست وتسعین وامیر المؤمنین فی رجب سنۃ احدی ومائۃ وخلافتہ سنتان ونصف رضی اللّٰہ تعالی عنہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
میں کہوں گا یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت سے پہلے وفات فرماگئے۔ ان کی وفات ۹۵ھ یا ۹۶ھ میں ہوئی اورامیرالمومنین کی وفات رجب ۱۰۱ھ میں ہوئی اور مدّتِ خلافت ڈھائی سال رہی، رضی اللہ تعالٰی عنہا۔واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
فــ:تاریخ وفات حضرت امام ابراہیم نخعی وعمر بن عبد العزیز ۔
والثانی : حمل الغرفۃ علی الحفنۃ ای بکلتا الیدین وربما تطلق علیھا فروی البخاری عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا فیما حکت غسلہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ” ثم یصب علی رأسہ ثلث غرف بیدیہ۱؎
دوسرا طریقہ : یہ کہ غرفہ کو حفنہ پر (چلو کو لَپ پر) یعنی دونوں ہاتھ ملا کر لینے پر محمول کیاجائے۔ اور بعض اوقات لفظ غرفہ کا اس معنٰی پر اطلاق ہوتاہے(۱)بخاری کی روایت میں ہے جو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی ٰعنہا سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غسل مبارک کی حکایت میں آئی ہے کہ :”پھر اپنے سرپرتین چلو دونوں ہاتھوں سے بہاتے”۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الغسل با ب الوضوء قبل الغسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)
ولا بی داؤد عن ثوبان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ، اما المرأۃ فلا علیھا ان لاتنقضہ لتغرف علی رأسھا ثلث غرفات بکفیھا ۲؎
(۲) ابو داؤد کی روایت میں ہے جوحضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نبی صلی اللہ تعالٰیعلیہ وسلم سے ہے” لیکن عورت پراس میں کوئی حرج نہیں کہ بال نہ کھولے ،وہ اپنے سرپردونوں ہاتھوں سے تین چلوڈالے”
(۲؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا عند الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۴)
ویؤیدہ حدیث ابی داؤد والطحاوی عن محمد بن اسحٰق عن محمد بن طلحۃ عن عبید اللّٰہ الخولانی عن عبداللّٰہ بن عباس عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وفیہ ثم ادخل یدیہ جمیعا فاخذ حفنۃ من ماء فضرب بھا علی رجلہ وفیھا النعل فغسلھا بھا ثم الاخری مثل ذلک ۱؎
(۳) اور اس کی تائید ابوداؤد اور طحاوی کی روایت سے ہوتی ہے جس کی سند یہ ہے ۔عن محمد بن اسحاق۔ عن محمد بن طلحہ عن عبیداللہ الخولانی۔ عن عبد اللہ بن عباس عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
اس میں یہ ہے کہ پھر اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر لپ بھر پانی لے کر اسے پاؤں پرمارا۔جبکہ پاؤں میں جوتا موجود تھا۔ تواس سے پاؤں دھویاپھر اسی طرح دوسرا پاؤں دھویا۔
(۱؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضوء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)
ولفظ الطحاوی ثم اخذ بیدیہ جمیعا حفنۃ من ماء فصک بھا علی قدمہ الیمنی والیسری کذلک ۲؎ واخرجہ ایضا احمد وابو یعلی وابن خزیمۃ۳؎ وابن حبان والضیاء وھذا معنی مامر من حدیث سعید بن منصور اِن شاء اللّٰہ تعالٰی والمعنی الاخر المسح وقد نسخ اوکان وفی القدمین جوربان ثخینان علی مابینہ الامام الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالی۔
اور روایت طحاوی کے الفاظ میں یہ ہے: پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے لپ بھر پانی لیا ، تواسے دائیں قدم پر زور سے ماراپھر بائیں پر بھی اسی طرح کیا۔اس کی تخریج امام احمد،ابویعلی،ابن خزیمہ، ابن حبان اور ضیاء نے بھی کی ہے۔اوریہی اس کا معنی ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی۔ جوسعید بن منصور کی حدیث میں آیا(کہ فرش علٰی قدمیہ تو اپنے دونوں قدموں پر چھڑکا”۱۲م) دوسرا معنی مسح ہے جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔یا مسح اس حالت میں ہوا کہ قدموں پر موٹے پاتا بے تھے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے بیان کیا۔
(۲؎ شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب فرض الرجلین فی الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۲)
(۳؎صحیح ابن خزیمہ حدیث ۱۴۸ المکتب الاسلامی بیروت۱ /۷۷)
(مواردالظمآن کتاب الطہارۃ حدیث ۱۵۰ المطبعۃ السلفیہ ص۶۶)
(کنز العمال بحوالہ حم ،د،ع وابن خزیمۃ الخ حدیث ۲۶۹۶۷ مؤسستہ الرسا لۃ بیروت ۹ /۴۵۹۔۴۶۰)
اقول : وما ذکرت من الوجہین فلنعم المحملان ھما لمثل طریق ابن ماجۃ حدثنا ابو بکر بن خلاد الباھلی ثنا یحیی بن سعید القطان عن سفیان عن زید وفیہ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ۱؎
اقول : میں نے جو دوطریقے ذکرکئے یہ بہت عمدہ محمل ہیں اس طرح کی روایات کے جو مثلاً بطریق ابن ماجہ یوں آئی ہیں ہم سے ابو بکر بن خلاد باہلی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے یحیٰی بن سعیدقطان نے حدیث بیان کی وہ سفیان سے وہ زیدسے راوی ہیں۔اس میں یہ ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیا۔
(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۳)
وحدیث ابن عساکر عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ وقال لایقبل اللّٰہ صلاۃ الابہ ۲؎
اور ابن عساکر کی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیا۔اورفرمایا: اللہ نماز قبول نہیں فرماتامگراسی سے ۔
(۲؎ کنز العمال بحوالہ عساکر عن ابی ہریرۃ حدیث ۲۶۸۳۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۳۱)
فیکون علی الحمل الاول کحدیث سعید بن منصور وابن ماجۃ والطبرانی والدار قطنی والبیہقی عن ابن عمروابن ماجۃ والدار قطنی عن ابی بن کعب والدار قطنی فی غرائب مالک عن زید بن ثابت وابی ھریرۃ معارضی اللّٰہ تعالی عنھم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ وقال ھذا وضؤ لایقبل اللّٰہ صلاۃالابہ ۳؎
تویہ ہمارے بیان کردہ پہلے طریقہ کے مطابق حضرت ابن عمر سے سعیدبن منصور،ابن ماجہ، طبرانی، دارقطنی اور بیہقی کی حدیث کی طرح ہوجائے گی، اور جیسے حضرت ابی بن کعب سے ابن ماجہ ودارقطنی کی حدیث، اور حضرت زید بن ثابت اور ابو ہریرہ دونوں حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم سے غرائب مالک میں دارقطنی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضوکیااورفرمایا:یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ کوئی نماز قبول نہیں فرماتا۔
(۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ و مرتین وثلثا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)
وکذا للیدین والرجلین فی حدیث ابن عباس غیرانہ یکدرھما جمیعا فی الوجہ قولہ اخذ غرفۃ من ماء فجعل بھا ھکذا اضافھا الی یدہ الاخری فغسل بھا وجہہ ۱؎
اسی طرح حضرت ابن عباس کی حدیث میں دونوں ہاتھوں اور پیروں سے متعلق جو مذکور ہے اس کا بھی یہ عمدہ محمل ہوگا۔ مگر یہ ہے کہ چہرے سے متعلق دونوں تاویلیں اس سے مکدر ہوتی ہیں کہ ان کا قول ہے”ایک چُلو پانی لے کر اسے اس طرح کیا، اسے دوسرے ہاتھ سے ملا کرچہرہ دھویا۔
(۱؎ صحیح البخاری باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ واحدۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶)
الا ان یتکلف فیحمل علی ان اضاف الغرفۃ ای الاغتراف الی الید الاخری ایضا غیر قاصر لہ علی ید واحدۃ فیرجع ای الاغتراف بالیدین ویکون کحدیث ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ایضا عن علی کرم اللّٰہ تعالٰی وجہہ عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ادخل یدہ الیمنی فافرغ بھا علی الاخری ثم غسل کفیہ ثم تمضمض واستنثر ثم ادخل یدیہ فی الاناء جمیعا فاخذ بہما حفنۃ من ماء فضرب بھا علی وجہہ ثم الثانیۃ ثم الثالثۃمثل ذلک۲؎
مگر یہ کہ بتکلف اسی معنی پر محمول کیاجائے کہ انہوں نے چلو لینے میں دوسرے ہاتھ کو بھی ملالیاایک ہاتھ پر اکتفانہ کی تو یہ دونوں ہاتھ سے چلو لینے کے معنی کی طرف راجع ہوجائے گا اوراسی طرح ہوجائے گا جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماکی حدیث،حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ داخل کرکے اس سے دوسرے ہاتھ پر پانی ڈالا پھر دونوں ہتھیلیوں کودھویا،پھر کُلی کی اورناک میں پانی ڈال کر جھاڑا پھربرتن میں دونوں ہاتھ ڈال کر ایک لپ پانی لے کر چہرے پر مارا، پھر دوسری پھر تیسری باراسی طرح کیا۔
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)
ورواہ الطحاوی مختصرا فقال اخذ حفنۃ من ماء بیدیہ جمیعا فصک بھما وجہہ ثم الثانیۃ مثل ذلک۳؎ ثم الثالثۃ فذکرالی المضمضۃ والاستنشاق الاغتراف بکف واحدۃ فاذا اتی علی الوجہ اضافہ الی الید الاخری ایضا فان لم یقبل ھذا فقد علمت ان استیعاب الوجہ بکف واحدۃ متعسر بل متعذر۔
اسے امام طحاوی نے مختصراً روایت کیا۔اس میں یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے پر مارا، پھر دوسری بار اسی طرح کیا،پھرتیسری بارایسے ہی۔ تومضمضہ واستنشاق تک توایک ہاتھ سے چلو لینا ذکر کیا۔جب چہرے پرآئے تودوسراہاتھ بھی ملایا۔اگر یہ تاویل نہ مانی جائے تو معلوم ہوچکا کہ ہتھیلی بھر پانی سے چہرے کا استیعاب دشوار بلکہ متعذر ہے۔(ت)
(۳؎شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الحکم الاذنین فی الوضوءللصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۰ )