اس بات کی تومیرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں اس جملے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات لوگ یہ جملہ بولتے ہیں کہ اس بات کی تو میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ۔کیا یہ جملہ کفریہ ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات لوگ یہ جملہ بولتے ہیں کہ اس بات کی تو میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ۔کیا یہ جملہ کفریہ ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ابوطالب کو کافر اور ابولہب و ابلیس کا مماثل کہتا ہے اور عمرو بدین دلائل اس سے انکار کرتا ہے کہ ا نہوں نے جناب سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کفالت و نصرت و حمایت و محبت بدرجہ غایت کی اور نعت شریف میں قصائد لکھے حضور نے انکے لیے استغفار فرمائی اور جامع الاصول میں ہے کہ : اہل بیت کے نزدیک وہ مسلمان مرے۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ عبادت جس کے غیر خدا عزوجل کو کرنے سے آدمی مشرک ہوجاتا ہے اس کی کیا تعریف ہے جو جامع اور مانع ہو اور اپنی جنس وفصل یا عرض عام اور خاصہ پر مشتمل ہو۔
اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفٰی والال والاصحاب(۱۲۹۸ھ)
(احباب کا اعتقاد جمیل (اﷲ تعالٰی) مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، آپ کی آل اور اصحاب کے بارے میں):
عقیدہ اُولٰی________________ذات و صفات باری تعالٰی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اُس مسئلہ میں کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ اور ایمان کامل کیسے ہوتا ہے؟ بینّوا توجروا
روایت ہے حضرت معاذ ابن جبل سے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرتا ہو ۱؎ پانچوں نمازیں اور رمضان کے روزے ادا کرتا ہووہ بخشا جاوے گا۲؎ میں نے کہا کہ کیا میں لوگوں کو یہ بشارت نہ دے دوں فرمایا انہیں رہنے دو کہ عمل کرتے رہیں ۳؎
انہیں سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل ایمان کے متعلق ۱؎ پوچھافرمایا یہ ہے کہ تم اللہ کے لئے محبت و عداوت کرو اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو ۲؎ عرض کیا اور کیا یارسول اللہ؟ فرمایا کہ لوگوں کے لئے وہ ہی پسند کرو جو اپنے لئے چاہتے ہو اور ان کے لئے وہ ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔(احمد)
روایت ہےحضرت ابوامامہ سے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے ۱؎ فرمایا کہ جب تمہیں اپنی نیکی خوش کرے اور اپنی برائی غمگین کرے تو تم کامل مؤمن ہو ۲؎ عرض کیا کہ یارسول اللہ گناہ کیا ہے۔فرمایا جو چیز تمهارے دل میں چبھے اسے چھوڑ دو۳؎ (احمد)
ترجمه.روایت ہے حضرت عمرو ابن عبسہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ حضور اسلام میں آپ کے ساتھ کون کون ہے فرمایا ایک غلام ایک آزاد ۲؎ میں نے عرض کیا اسلام کیا ہے ۳؎ فرمایا اچھی بات کرنا کھانا کھلانا ۴؎ میں نے پوچھا ایمان کیا ہے ۵؎ فرمایا صبر اور سخاوت ۶؎ فرماتے ہیں میں نے پوچھا کون سااسلام بہتر ہے فرمایا جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں فرماتے ہیں میں نے پوچھا کونسا ایمان افضل ہے فرمایا اچھے عادات ۷؎ فرماتے ہیں ..پوچھا نماز کونسی افضل ہے ۸؎ فرمایا لمبا قیام ۹؎ فرماتے ہیں میں نے پوچھا ہجرۃ کونسی بہتر ہے ۱۰؎ فرمایا یہ کہ جو رب کو ناپسند ہو اسے چھوڑ دو ۱۱؎ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ جہاد کونسا بہتر ہے فرمایا جس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ دیئے جاویں اور اس کا خون بہادیا جاوے ۱۲؎ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا گھڑی کون سی بہتر ہے۱۳؎ فرمایا آخری رات کا درمیانی حصہ۱۴؎ (احمد)
روایت ہےحضرت ابوہریرہ سے فرماتےہیں کہ فرمایا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تم میں سے کوئی اپنا اسلام ٹھیک کرے ۱؎ تو جو نیکی بھی کرے گا وہ دس گنا لکھی جاوے گی سات سو گنا تک ۲؎ اور ہر برائی جو کر بیٹھے گا وہ ایک گنا ہی لکھی جاوے گی ۳؎ یہاں تک کہ رب سے ملے۔(مسلم و بخاری)
روایت ہے حضرت وہب ابن منبہ سے ۱؎ کہ ان سے عرض کیا گیا کہ کیا کلمہلا الہ الا ﷲ جنت کی چابی نہیں ۲؎ فرمایا ہاں ہےلیکن کوئی چابی دندانہ بغیر نہیں ہوتی ۳؎ تو اگر تم دندانہ والی چابی لے کر آؤ گے تو تمہارے لئے دروازہ کھلے گا ورنہ نہ کھلے گا ۴؎(بخاری ترجمہ باب)
روایت ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضور کے صحابہ میں سے بعض حضرات اس قدر غمگین ہوئے کہ بیماری وہم میں مبتلا ہونے کے قریب ہوگئے ۱؎ حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ میں بھی ان میں تھا ایک میں بیٹھا تھا کہ عمر فاروق گزرے مجھے سلام کہا لیکن مجھے مطلقًا شعو ربھی نہ ہوا ۲؎ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر سے میری شکایت کی۳؎ پھر وہ دونوں حضرات میرے پاس تشریف لائے اور دونوں نے مجھے سلام کیا۴؎ ابوبکر نے مجھ سے فرمایا کہ کیا باعث ہوا کہ تم نے اپنے بھائی عمر کے سلام کا جواب نہ دیا میں نے کہا میں نے تو ایسا نہ کیا عمر بولے ۵؎ خدا کی قسم تم نے یہ کیا میں نے کہا خدا کی قسم مجھے نہ یہ خبر کہ تم گزرے نہ یہ کہ تم نے مجھے سلام کیا ۔ابوبکر صدیق نے فرمایا عثمان سچے ہیں اے عثمان تمہیں کسی الجھن نے پھنسالیا ۶؎ اس سے بے خبر کردیا میں نے کہا ہاں فرمایا وہ الجھن کیا ہے میں نے کہا کہ الله نے اس سے پہلے ہی اپنے نبی کو وفات دے دی کہ ہم حضور سے اس چیز کی نجات کے متعلق پوچھیں ۷؎ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے اس کے متعلق حضور سے پوچھ لیا ہے ۸؎ میں آپ کی خدمت میں کھڑا ہوگیا ۹؎ اور کہا اے ابوبکر تم پر میرے ماں باپ فدا یہ تمہارا ہی حق ہے ۱۰؎ ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یارسول الله اس چیز کی نجات کیسے ہوگی ۱۱؎ حضور نے فرمایا جو میری وہ بات مان لے جو میں نے اپنے چچا پر پیش کی تھی ۱۲؎ انہوں نے رَد کردی تھی۱۳؎ تو یہ بات اس کی نجات ہے۔(احمد)