میلاد پاک, ی۔دینیات

کیا جشن عید میلاد النبی پر خرچ کرنا اسراف میں شامل نہیں ہے

(1) ربیع الاول کے مہینے میں سڑکوں پر چراغاں کیا جاتا ہے اس میں لاکھوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ آیا یہ رقم اسراف میں شامل ہے یا اس سے مستثنی ہے ؟
(۲) کیا گیارہویں شریف اور محرم الحرام کے مہینے میں چندہ جمع کرنا ضروری ہے ، اگر اکیلئے فاتحہ کرے تو کیسا ہے ؟
الجواب:
اسراف کے معنی یہ ہیں کہ ناجائز کام میں رقم خرچ کی جائے یا ایسے کام میں رقم خرچ کی جائے جس کا مقصد صحیح نہ ہو مثلاً شراب ، سینما گانا وغیرہ ناجائز کاموں میں خرچ کرنا یا اپنے روپے کو دریا میں پھینک دینا یا نوٹوں کو جلا دینا یہ صورتیں اسراف کی ہیں۔ نیکی میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے اس کا اصول یہ ہے :
لا خير في الاسراف ولا اسراف في الخير یعنی اسراف کے کام میں نیکی نہیں ہے اور نیکی میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ صرف ربیع الاول کے مہینے میں چراغاں کرنے اور جھنڈیوں کے لگانے پر یہ لوگ اعتراض کیوں کرتے ہیں ؟
شادیوں اور دیگر تقریبات کے مواقع پر جو چراغاں ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ۔ اور اگر اسراف کے یہی معنی ہیں کہ مطلقاً ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے تو یہ مکان بنانا سب اسراف ہوگا اس لے کہ ایک جھگی میں بھی رہا جاسکتا ہے،
اچھے اور قیمتی کپڑے سلوانا بھی اسراف ہوتا اس لیے کہ ٹاٹ کھدر وغیرہ سے بھی سترپو شی ہو سکتی ہے ، اپنے کھانوں پر خرچ کرنا بھی اسراف ہوگا موٹے آٹے کی چٹنی یا سرکہ کے ساتھ کھانے سے بھی پیٹ بھر سکتا ہے ۔ ان سب باتوں میں جب روپیہ صرف کرنا اس لیے اسراف نہیں ہے کہ مقصد صحیح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے اگرچہ ضرورت سے زیادہ ہے ۔ اسی طرح میلاد کہ موقع پر صرف کرنا اسراف نہیں ہے کہ عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کرنا مقصود ہے ۔
(1) بہتر تو یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنا پیسہ خرچ کر کے نذر و نیاز کرے البتہ اجتماعی طور پر نیاز کے لیے لوگوں سے بلا جبر چندہ کر کے نذر و نیاز کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 156

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *