جواب نمبر 1: ممانعت اس تعویذ یادم کی ہے جس کا معنی معلوم نہ ہو کیونکہ ہو سکتا ہے اس میں کوئی کفریہ یا غلط بات ہو۔
جواب نمبر 2: ایسی چیز سے ممانعت فرمائی گئی جن اشیاء میں تاثیر کا عقیدہ کفار کے ذہنوں میں راسخ ہو گیا ہو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں نظر بد کے لیے گھونگے (سپیاں) بچوں کے گلوں میں لٹکائے جاتے تھے تو ان کی ممانعت فرمادی گئی۔
جواب نمبر 3: یہ ممانعت ان لوگوں کے متعلق ہے جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اشیاء میں تاثیر اور منفعت ان اشیاء کی طبیعت اور ماہیت کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ شفا دینے والی ال لہ تعالیٰ کی ذات ہے ، یہ چیزیں تو محض ظاہری اسباب ہیں جیسا کہ ڈاکٹر کی دوائی ۔
جواب نمبر 4: پہلے منع فرمایا بعد میں یہ مانعت منسوخ فرما کر اجازت عطا فرمادی جیسا کہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے، حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میرے ایک ماموں بچھو سے دم کیا کرتے تھے، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہ وسلم نے دم سے منع فرمایا تو وہ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نے دم سے منع فرمادیا اور میں بچھو سے دم کرتا ہوں فرمایا تم میں سے جو اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مدد کرے
جواب نمبر 5 : جادو سے منع فرمایا ۔
جواب نمبر 6: اس تعویذ سے منع فرمایا جو کسی برے کام کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جیسا کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کروانے کے لیے۔
ان وجوہات کے دلائل تفصیلا ملاحظہ فرمائیں :
علامہ یحیی بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
(جن تعویذات اور دموں سے ممانعت آئی ہے ) ان سے مراد وہ ہیں جو کلام کفر سے ہوں ، مجہول ہوں، عربی کے علاوہ کسی ایسی لغت کے ہوں کہ ان کہ ان معنی نا معلوم ہوں، یہ مذموم ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے معنی کفریہ یا قریب بہ کفر ہوں یا مکروہ ہوں ۔
جہاں تک قرآنی آیات اور اذکار معروفہ سے تعویذ اور دم کرنے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ تو سنت ہے، بعض نے ( جواز اور ممانعت ) دونوں قسم کی احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ منع کرنا بیان افضلیت کے لیے ہے اور جواز والی احادیث بیان جواز کے لیے ہیں یہ ابن عبد البر کا قول ہے اور مختار جواب پہلا ہے۔ مزید فرماتے ہیں:علماء نے آیات اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ دم کرنے کے جواز پر جماع نقل کیا ہے،علامہ مازری نے کہا:
کتاب اللہ اور اللہ کے ذکر کے ہر قسم کا دم کرنا جائز ہے، ممانعت اس صورت میں جب وہ کلمات عجمی ہوں یا اس کا یا اس کا معنی غیر معلوم ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کا معنی کفریہ ہو۔ اہل کتاب کے کلمات کے ساتھ دم کرنے میں اختلاف ہے ،
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے جائز کہا ہے اور امام مالک نے اسے مکروہ کہا ہے اس خدشہ سے کہ ہو سکتا ہے انہوں نے تحریف کر دی ہو۔ جنہوں نے جائز کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے دموں کو تبدیل نہیں کیا کیونکہ اس سے ان کی کوئی غرض متعلق نہیں، برخلاف اس کے علاوہ کے کہ اس کی تبدیلی میں ان کی اغراض متعلق تھیں۔ اس کے
بعد امام مسلم نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا: مجھ پر اپنے دم پیش کرو ، اگر اس میں کوئی ( قابل اعتراض ) چیز نہیں تو ان کے ساتھ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔